لاکھ وہ ظلم و ستم کرتے ہیں مجھ پر لیکن
پھر بھی کیوں دل میرا ان کا ہی شیدائی ہے
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے انتظامیہ کی جانب سے مخالف ہند موقف اب کھل کر اختیار کرلیا گیا ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ گاہے بگاہے مخالف ہند اقدامات میں مصروف تو تھا ہی تاہم کھلے اور واضح طور پر کوئی موقف اختیار کرنے سے گریز کیا جا رہا تھا ۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کو قطعیت دینے کیلئے بات چیت کی جا رہی ہے ۔ یہ بات چیت آگے بھی بڑھی تھی ۔ ہندوستانی وفد نے امریکہ کا دورہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ کو قطعیت دینے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ معاہدہ کیلئے کوششیں اپنی جگہ لیکن اب ٹرمپ انتظامیہ کھل کر مخالف ہند موقف اختیار کرچکا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے ہندوستان پر 25 فیصد شرحیں عائد کردی ہیں۔ ہندوستانی مصنوعات کی اب امریکہ میں فروخت پر نہ صرف بھاری شرحیں ادا کرنی ہونگی بلکہ امریکہ کی جانب سے جرمانے بھی عائد کردئے گئے ہیں اور یکم اگسٹ سے ان پر اطلاق بھی شروع ہوجائے گا ۔ یہ فیصلہ ہندوستان کیلئے انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے ۔ ہندوستان کی معیشت پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ ملک کی معیشت کی ترقی کے دعوے کئے جا رہے ہیں امریکہ کی جانب سے کیا گیا فیصلہ معیشت پر منفی اثرات کا سبب بنے گا ۔ ہندوستانی مصنوعات کی برآمدات پر اثر ہوگا اور معاشی سرگرمیاں متاثر ہونگی ۔ یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ اس کے نتیجہ میں ملازمتوں پر بھی اثر پڑسکتا ہے ۔ ہندوستان نے گذشتہ کچھ دہوں میںامریکہ سے قریبی روابط استوار کئے تھے ۔ عالمی امور میں امریکہ اور ہندوستان ایک رائے ہو رہے تھے ۔ کئی اہم عالمی امور پر ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوکر اس کی تائید بھی کی تھی ۔ اسرائیل کے تعلق سے ہندوستان کے موقف میں بھی امریکہ سے دوستی اور قربت کی وجہ سے تبدیلی آئی تھی ۔ ہندوستان نے امریکہ کے دباؤ یا تعلقات کے ہی نتیجہ میں فلسطینی کاز سے بتدریج دوری اختیار کی ۔ اس سب کا حاصل کچھ نہیں ہوا بلکہ امریکہ نے ہندوستان کے خلاف ہی فیصلے اورا قدامات کا آغاز کردیا ۔ ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ جو دوستی نبھائی تھی اس کا فائدہ سے زیادہ نقصان ہونے لگا ہے ۔
وزیر اعظم نریندرمودی نے امریکہ کی تائید میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ سے دوستی کا وہ کھل کر اظہار کررہے تھے ۔ ہندوستان کے تلوے چاٹنے والے ٹی وی اینکرس بھی مودی ۔ ٹرمپ کی دوستی کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے تھے ۔ اسے پورے فخر کے ساتھ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے ۔ اس سب کے باوجود اب امریکہ نے ہندوستان کیلئے جو موقف اختیار کیا وہ ہمارے مفاد کے مغائر ہے ۔ جہاں ہندوستانی مصنوعات پر بھاری شرحیں عائد کرنے کا اعلان کردیا گیا اور جرمانے بھی عائد کردئے گئے ہیں وہیں پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کو قطعیت دیدی ہے ۔ پاکستان میں تیل کے ذخائر کی دریافت اور کھوج شروع کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے ۔ یہ در اصل ہندوستان کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی ہے اور پاکستان کی ایک بار پھر سے سرپرستی کی جا رہی ہے ۔ جس وقت پہلگام حملہ ہوا اور پھر آپریشن سندور کیا گیا اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کو ہندوستان کے مقابل لا کھڑا کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی اور دونوں کا تقابل یکساں بنیادوں پرکرتے ہوئے ہندوستان سے ناانصافی کی تھی ۔ ہندوستان پر اضافی شرحوں کا نفاذ اور پاکستان پر مہربانی کرتے ہوئے امریکہ نے واضح طور پر ہندوستان کے مخالف ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ فیصلے کرتے ہوئے ہندوستان اور خاص طور پر نریندر مودی کے ساتھ دوستی کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کا لحاظ رکھا ہے ۔
ہندوستان کو کم از کم اب اپنے موقف پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالمی سطح پر تعلقات اور دوستی کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن یہ سب کچھ ملک اور قوم کے مفادات کی قیمت پر نہیں کی جانی چاہئے ۔ امریکہ اگر طاقتور ہے اور ہمارے دشمن ملک پر مہربانیوں کا سلسلہ دراز کرتا جا رہا ہے تو ہمیں بھی امریکہ کے مقابل کھڑے ہونے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ امریکہ پر یہ واضح کردینے کی ضرورت ہے کہ ہم اس کے دباؤ کو تسلیم نہیں کریں گے اور نہ ہی قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کریں گے ۔ یہ واضح پیام دیا جانا ضروری ہے ۔