امریکہ میں طلباء کیلئے مشکلات

   

ڈونالڈ ٹرمپ کی دوسری صدارتی میعاد میں کئی شعبہ جات ایسے ہیں جو متاثر ہو رہے ہیں اور ان میں اتھل پتھل پیدا ہوگئی ہے ۔ سب سے پہلے تو امریکہ بھر میں تارکین وطن کے خلاف مہم شروع کی گئی ۔ کئی ممالک بشمول ہندوستان کے تارکین وطن کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہناتے ہوئے وطن واپس بھیجا گیا ۔ انہیں امریکہ سے نکالا گیا ۔ دوسرے ممالک سے ہوتے ہوئے آبائی ممالک کو بھیجا گیا ۔ اس کے علاوہ تجارتی شعبہ کو بھی دنیا بھر میں اتھل پتھل کا شکار کردیا گیا۔ کئی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تجارتی تعلقات متاثر ہونے کے قریب ہیں۔ کئی ممالک ایسے بھی ہیں جن پر امریکہ کی جانب سے شرحیں عائد کئے جانے کے نتیجہ میں وہاں کی معیشت متاثر ہونے لگی ہے ۔ اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی دوسری میعاد میں تعلیم کے شعبہ کو بھی نہیں چھوڑا ہے ۔ سب سے پہلے تو ہارورڈ یونیورسٹی پر شکنجہ کسا جا رہا ہے ۔ وہاں بیرونی طلباء کے داخلوں پر امتناع عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم طلباء کیلئے بھی ویزے منسوخ کرنے جیسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے ۔ ہندوستانی سفارتخانہ نے اس سلسلہ میںہندوستانی طلباء کو خبردار کیا ہے کہ وہ تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کریں ‘ کلاسیس میں پابندی سے شرکت کریں اور دیگر کئی پابندیاں بھی رہیں گی ۔ اگر ان کی تکمیل نہیں کی گئی تو پھر طلباء کے ویزے بھی منسوخ کئے جاسکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ اپنی دوسری میعاد میں لگاتار ایسے اقدامات اور فیصلے کرتا جا رہا ہے جن کے نتیجہ میںمختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ کم از کم طلباء برادری کو ایسے اقدامات سے محفوظ رکھا جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوا ہے اور طلباء برادری اور تعلیمی اداروںکو بھی ایسی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ حالانکہ ہارورڈ میں بیرونی طلباء کے داخلے روکنے سے متعلق حکمنامہ کو امریکہ کی ایک عدالت نے فی الحال روک دیا ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشکلات شروع ہوگئی ہیں اور آئندہ بھی کئی اقدامات کئے جاسکتے ہیں جن کے نتیجہ میں طلباء برادری اور تعلیمی نظام کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
امریکہ دنیا بھر کے طلباء اور زندگی میں آگے برھنے کے خواہشمند افراد کیلئے ایک پسندیدہ مقام رہا تھا ۔ امریکہ میں تعلیم کا بہتر نظام ہے اور طلباء کیلئے بہتر سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ وہ امریکہ میں قیام کرتے ہوئے اپنی تعلیم کے اخراجات کی تکمیل میں بھی کامیاب ہوتے تھے ۔ انہیں مقررہ گھنٹوں تک کام کرنے کی بھی اجازت ہوا کرتی تھی ۔ بحیثیت مجموعی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اخراجات کی تکمیل کا بھی انہیں موقع دستیاب تھا ۔ تاہم بتدریج حالات کو مشکل کیا جا رہا ہے ۔ بیرونی طلباء اور خاص طور پر ایشیائی ممالک کے طلباء کیلئے بھی اب حالات مشکل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جو طلباء ماسٹرس کی تکمیل کیلئے امریکہ کو پسند کرتے تھے اب ان کیلئے صورتحال بدل رہی ہے ۔ جو طلباء امریکہ میں داخلہ حاصل کرچکے ہیں وہ اب متبادل امکانات پر غور کرنے لگے ہیں۔ کچھ طلباء کی جانب سے تو دوسرے ممالک کے انتخاب پر بھی غور ہو رہا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں تھا ۔ لوگ دنیا بھر سے امریکہ کو منتخب کرتے ہوئے یہاں آیا کرتے تھے لیکن نئے قوانین اور شرائط میں سختی کی وجہ سے حالات تیزی سے تبدیل ہونے لگے ہیں اور اس کا اثر راست طلباء اور ان کی تعلیم پر ہونے لگا ہے ۔ ابتدائی مراحل میں ہی جو طلباء متبادل امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں وہ مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں یہ اندیشے بھی لاحق ہیں کہ آئندہ وقتوں میں شرائط مزید سخت ہوسکتی ہیں اور ان کی تعلیمی سفر مزید مشکلات کاشکار بھی ہوسکتا ہے ۔
امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ اپنے ملک کے تعلق سے جو چاہے فیصلے کرسکتا ہے اور شرائط بھی عائد کی جاسکتی ہیں لیکن کم از کم طلباء برادری اور تعلیمی شعبہ کے تعلق سے لچکدار اور نرم رویہ اختیار کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ طلباء اطمینان کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اعلی تعلیم کے نتیجہ ہی میں امریکہ اور دنیا بھر کی ٹاپ کمپنیوں کے تمام بڑے ذمہ دار ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سہولت برقرار رکھی جانی چاہئے تاکہ مختلف ممالک اور خاص طور پر ہندوستان کے طلباء اپنی اعلی تعلیم جاری رکھ سکیں اور تعلیم کی تکمیل کے بعد دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں اور دنیا کو مستفید بھی کرسکیں۔