ویکسین کا حصہ بننے والی نرس پُرجوش ،خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، احتیاط ہی بچنے کا واحد راستہ
واشنگٹن: امریکہ میں کورونا وائرس کی تجرباتی ویکسینز کے سب سے بڑے اور حتمی آزمائشی مرحلہ کا آغاز ہوگیا ہے جس میں عالمی وبا کو روکنے کی دوڑ میں 30 ہزار افراد پر اس کا تجربہ کیا جائے گا۔اے پی کی رپورٹ کے مطابق نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ موڈرنا کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کی ٹیسٹنگ کا آخری مرحلہ امریکہ کے متعدد مقامات پر رضاکاروں کے ساتھ شروع ہوگیا ہے جنہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ انہیں اصل یا ڈمی ڈوز دی جارہی ہے۔نیویارک میں بنگہمٹن میں ویکسین لینے والی 36 سالہ نرس میلیسا ہارٹنگ نے کہا کہ ‘میں اس طرح کی کسی چیز کا حصہ بننے پر بہت پْرجوش ہوں، یہ بہت بڑی بات ہے’۔انہوں نے کہا کہ خاص طور پر فرنٹ لائن ملازمتوں میں اہلخانہ کے ساتھ کام کرنا جو انہیں بھی وائرس سے دوچار کرسکتا ہے اس کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنا میرے لیے بہت اہم ہے۔علاوہ ازیں گزشتہ روز ہی ایک اور کمپنی فائزر انکارپوریشن نے امریکہ اور دیگر مقامات میں اپنی ویکسین کے رضاکاروں پر تحقیق کے آغاز کا اعلان کیا، اس تحقیق کا مقصد 30 ہزار افراد پر اس کی آزمائش کرنا ہے۔ ان ویکسینز کے نتائج آنے میں مہینوں لگ جائیں گے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ ویکسین اس عالمی وبا کے خلاف کام کرے گی جو دنیا میں ساڑھے 6 لاکھ سے زائد جبکہ صرف امریکہ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کی ہلاکت کی وجہ بن چکی ہے۔میریڈین کلینیکل ریسرچ کے ڈاکٹر فرینک ایڈر نے کہا کہ ہم سائیڈ لائنز پر ہیں جو اپنے ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں
اور بلاضرورت باہر نہیں جاتے یہ اس وبا کے خلاف متحرک ہونے میں پہلا قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے بچ کر نکلنے کا حقیقت میں کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔خیال رہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے چند ماہ بعد سے ہی سائنسدان، ویکسین کے حصول کے لیے ریکارڈ آزمائش کررہے لیکن انہوں نے زور دیا تھا کہ عوام کو اس حوالے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔این آئی ایچ کے ڈائریکٹر فرانس کولنز نے موڈرنا کی ویکسین کے 10 انجیکشن دیے جانے کے بعد کہا تھا کہ یہ اہم سنگِ میل ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہاں ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ہم یہ ثابت کرنے پر سمجھوتہ نہیں کریں گے کہ ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے یا نہیں۔موڈرنا کے چیف ایگزیکٹو افسر اسٹیفین بینسل نے کہا کہ ہم رفتار پر توجہ مرکوز کررہے کیونکہ ہر دن اہم ہے۔رضاکاروں کو ایک ماہ کے بعد 2 ڈوز دیے جانے کے بعد سائنسدان یہ معلوم کریں گے کہ کس گروپ کو زیادہ انفیکشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کسی جانچ کے بغیر وائرس پھیل رہا ہے۔ این آئی ایچ کے سربراہ انتھونی فاکی نے کہا کہ اس ویکسین کے نتائج کا جواب شاید نومبر یا دسمبر تک بھی نہیں آئے گا، انہوں نے مزید کہا کہ خسرے کی ویکسین جتنی مؤثر ویکسین کی توقع نہ کریں جو انفیکشن کو 97 فیصد تک روک دیتی ہے۔