امریکہ کی پاکستان سے قربت!

   

ہماری وفا سے بڑھی تیری عظمت
تیرے نام کی ورنہ شہرت نہ ہوتی
حالیہ وقتوں میں ایسا لگتا ہے کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ مخالف ہند اقدامات کا سلسلہ لگاتار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صدر امریکہ نے کچھ ایسے فیصلے اورا قدامات کئے ہیں جن سے ہندوستان کے مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان میں امریکہ کے تعلق سے جو خیرسگالی جذبات موجود ہیں وہ بھی بدل سکتے ہیںکیونکہ ٹرمپ لگاتار پاکستان سے قربت کا اظہار کرنے والے کاموں میں مصروف ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی دوسری معیاد کے دوران جس طرح سے تارکین وطن کو نکال باہر کرنے کا فیصلہ کیا اور ہندوستانی تارکین وطن اور طلباء کو جس طرح سے ہتھکڑیاں لگاتے ہوئے اورمجرموں جیسا سلوک کرتے ہوئے ہندوستان واپس بھیجا تھا اس پر عوامی برہمی پیدا ہوگئی تھی ۔ اس کے بعد پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران ٹرمپ نے دونوںملکوں کے مابین جنگ بندی کروانے کا دعوی کیا ۔ ہندوستان لگاتار اس دعوی کی تردید کرتا رہا لیکن ٹرمپ نے کئی مواقع پر اور کئی فورمس میں یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے ہی دونوںملکوں کے مابین جنگ بندی کروائی ہے ۔ اب وزیر اعظم نریندرمودی کی جانب سے فون پر بات چیت کے بعد انہوں نے یہ ابت پہلی مرتبہ کہی کہ دونوں پڑوسی ملکوں نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے ہندوستان پر تجارتی شرحیں عائد کرنے کا بھی اعلان کردیا تھا اور یہ بھی دعوی کیا تھا کہ ہندوستان نے صفر شرحوں پر تجارت کی پیشکش کی ہے ۔ ہندوستان نے اس دعوی کی بھی تردید کردی تھی ۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کو وائیٹ ہاوز میں ظہرانہ پر مدعوک یا ہے ۔ حالانکہ دونوںملکوں کے تعلقات کے اعتبار سے یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے لیکن جس طرح سے امریکہ نے بتدریج ہندوستان سے دوریاں اختیار کرنے کی روش اختیار ہے اس تناظر میں یہ ملاقات ہندوستان کیلئے اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ اس کے ذریعہ ایک بار پھر ٹرمپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کا انتظامیہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان کے ساتھ کام کرنے تیار ہے ۔ ہندوستان اس ساری تبدیلی اور صورتحال پر گہری اور قریبی نظر رکھے ہوئے ہے ۔
رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو اپنی دفاعی ٹکنالوجی تک رسائی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ جنوبی ایشیاء کے حالات اور دہشت گردی کو پاکستان کی تائید کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ کے اس فیصلے سے ہندوستان کو تشویش لاحق ہونی فطری بات ہے ۔ پاکستان لگاتار دہشت گردی کی تائید و حمایت کا مرتکب ہوا ہے ۔ خود امریکہ نے ایک سے زائد مرتبہ یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے ۔ اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان کی جانب جھکاؤ اور اس ملک پر عنایتوں کی بارش کرنا ناقبل فہم ہے ۔ اس کے پس پردہ امریکی انتظامیہ اور ٹرمپ کی کیا حکمت عملی ہوسکتی ہے اس کا ہندوستان کو باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔ عالمی سطح پر بھی ہندوستان کی اہمیت اور اس کی طاقت کو تسلیم کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان داخلی طور پرا نتہائی کمزور ہوچکا ہے ۔ اس کی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہونچ گیا ہے ۔ ان تمام دگرگوں حالات سے قطع نظر پاکستان دہشت گردوں اور دہشت گردی کی تائید و حمایت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے ۔اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان سے قربت بڑھانے کے اقدامات سے یقینی طور پر ہندوستان کو فکر لاحق ہونی چاہئے اور ان دونوں کے تعلقات پر گہری اور قریبی نظر بھی رکھی جانی چاہئے ۔ یہ ہمارے لئے بہت اہمیت کا حامل ہوگا ۔
ہندوستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کرتے ہوئے امریکہ پر انحصار کو کم سے کم کرنا چاہئے ۔ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہمیشہ تیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ امریکہ اس معاملے میں قابل بھروسہ نہیں ہوسکتا ۔ دہشت گردی کا سرپرست ہونے کے باوجود پاکستان سے تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششیں کئی سوال پیدا کرتی ہیں ۔ ہندوستان کو بھی اپنی دوستی اور اپنے تعلقات کے معاملے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایسی جامع اور موثر حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ ملک کے مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے اور ملک کیلئے کسی طرح کے مسائل پیدا ہونے نہ پائیں۔