افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں کمی لانے سے اتفاق : ترجمان سہیل شاہین کا بیان
کابل 18 جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) طالبان کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ ماہ جنوری کے اختتام تک کوئی معاہدہ ہوجائے ۔ طالبان معاہدہ پر دستخط سے قبل فوجی کارروائیوںمیں کمی لانے کیلئے بھی تیار ہیں۔ طالبان کے ترجمان اعلی سہیل شاہین نے یہ بات بتائی ۔ انہوں نے ایک پاکستانی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اور امریکہ کی جانب سے جاریہ مہینے دوحہ میں بات چیت ہوئی ہے ۔ اس سے قبل طالبان نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکہ کو بات چیت کی پیشکش کی ہے اور عارضی جنگ بندی کی بات بھی کہی گئی ہے ۔ سہیل شاہین نے بتایا کہ ہم نے فوجی کارروائیوں میں کی لانے سے بھی اتفاق کیا ہے تاکہ معاہدہ سے قبل کے ایام میں حالات پرسکون ہوں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو امید ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ جاریہ مہینے کے اختتام سے قبل طئے پاسکتا ہے اور ملک بھر میں لڑائی کی شدت میں کمی کا یہ مطلب ہوگا کہ افغان افواج کو نشانہ بنانے میں بھی کمی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ محض چند دنوں کی بات ہے ۔ امریکہ نے کئی ہفتوں سے کہا ہے کہ طالبان کو چاہئے کہ وہ تشدد میں کمی لائے ۔ امریکہ اس مطالبہ کو بات چیت کیلئے پیشگی شرط کے طور پر پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر وئی معاہدہ ہوجاتا ہے تو سکیوریٹی ضمانت کے بدلے میں امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوجائیگا ۔ امریکہ یہاں دو دہوں سے مصروف ہے ۔ طالبان اور امریکہ کے مابین ایک سال سے کسی معاہدہ کیلئے بات چیت چل رہی ہے اور ماہ ستمبر 2019 میں یہ لوگ معاہدہ سے قریب پہونچ گئے تھے تاہم اسی وقت ڈونالڈ ٹرمپ نے اچانک ہی قیام امن کی کوششوں کے اختتام کا اعلان کردیا تھا ۔ بعد میں بات چیت دوبارہ ڈسمبر میں قطر میں شروع ہوئی تھی تاہم بگرام فوجی اڈہ کے قریب ہوئے حملے کے بعد اسے پھر روک دیا گیا تھا ۔ یہ فوجی اڈہ امریکہ کے کنٹرول میں ہے ۔ دونوں فریقین کے مابین کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس کے دو اہم ستون ہونگے ۔ ایک تو یہ کہ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوگا اور دوسرا یہ کہ طالبان وہاں جہادی سرگرمیوں کی پشت پناہی نہیں کرینگے ۔ ایسا کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس کو ڈونالڈ ٹرمپ کی منظوری ضروری ہوگی۔