امریکہ ‘ ہندوستان اور شرحیں

   

لب پہ ہے ایمانداری دل کی مکاری کے ساتھ
دشمنی گھل مل گئی ہے ان دنوں یاری کے ساتھ
ہندوستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں لگاتار گراوٹ آنے لگی ہے اور امریکہ کی جانب سے ہندوستان پر مسلسل شرحیں عائد کرتے ہوئے دباؤ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ امریکہ نے ہندوستان پر اب تک 25 فیصد شرحیں عائد کردی ہیں اور اب ڈونالڈ ٹرمپ نے انتباہ دیا ہے کہ وہ آئندہ 24 گھنٹوں میں ہندوستان کے خلاف مزید شرحیں لاگو کرسکتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ ویسے تو دوسرے کئی ممالک کے خلاف بھی لگاتار شرحیں عائد کرنے لگے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ وہ امریکہ کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے تمام ضر وری اقدامات کر رہے ہیں تاہم جہاں تک ہندوستان کا مسئلہ ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کٹر مخالف ہند موقف اختیار کرچکے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ لگاتار ہندوستان کے خلاف فیصلے کرتے جا رہے ہیں اور بعض ایسے تبصرے کر رہے ہیں جن سے ہندوستان کو ااشتعال دلایا جاسکے ۔ دنیا بھر میں تجارت کا ایک نظام ہے ۔ تمام ممالک اس کے پابند ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق اپنی اپنی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اپنے خود کے قومی مفادات کا بہر قیمت تحفظ کیا جاتا ہے ۔ کسی کو کسی پر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ مساویانہ بنیادوں پر تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ شرحیں ایسی عائد کی جاتی ہیں جن سے دونوں ہی فریقین کو فائدہ ہوسکے اور تجارت کاسلسلہ جاری اور برقرار رہ سکے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے تاہم دوسری معیاد میں صدارتی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اچانک ہی ساری دنیا میں تجارتی اتھل پتھل شروع کردی ہے ۔ وہ ایسے لگاتار اقدامات کر رہے ہیں جن کے نتیجہ میں مختلف ممالک کی معاشی صورتحال متاثر ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے سب سے پہلے چین کے خلاف سخت فیصلہ کیا تھا تاہم چین کے جواب میں سخت اقدامات کے نتیجہ میں ٹرمپ نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے ۔اس کے علاوہ یوروپی ممالک کو بھی انہوں نے دھمکانے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں بھی ان کا رویہ نرم پڑ گیا ۔ تاہم جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے وہ لگاتار سخت اعلانات کر رہے ہیں اور رویہ میں نرمی لانے کو تیار نہیں ہیں ۔
حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان کی معیشت نے ترقی کی رفتار پکڑی ہے ۔ ہندوستان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا ہے یا تیسری معیشت بن رہا ہے ۔ ایسے میں اگر امریکہ کے ساتھ تجارتی امور میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور ٹرمپ کی عائد کردہ شرحوں پر عمل شروع ہوجاتا ہے تو اس سے ہندوستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے لازمی ہیں۔ ہندوستان یقینی طور پرا مریکہ کے دباؤ کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ امریکہ کی شرائط پر تجارت کرنا چاہتا ہے تاہم ہندوستان کیلئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی تجارت کی روانی کو برقرار رکھنے کیلئے متبادل مارکٹس اور راستوں کا انتخاب کرے ۔ برکس ممالک ہوں یا روس کے ساتھ تعلقات ہوں سبھی معاملات میں ہندوستان کو پوری احتیاط کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے ۔ دباؤ کی پالیسی کو قبول کرنے کی بجائے متبادل راستوں کی تلاش کرتے ہوئے امریکہ کو یہ احساس دلایا جاسکتا ہے کہ اس کے بغیر بھی تجارت کی جاسکتی ہے اور اس کے بغیر بھی ہندوستان کی معیشت کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اس کیلئے جامع منصوبہ بندی اور تجارتی امور کو سمجھتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اڈھاک بنیادوں پر کوئی اقدام یا فیصلہ کرتے ہوئے صورتحال کو موثر ڈھنگ سے حل نہیں کیا جاسکتا ۔ ماہرین معاشیات اور تجارتی شعبہ کو اعتماد میں لیتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امریکی تحدیدات کا اثر کم سے کم کیا جاسکے ۔
ہندوستان کو اپنی ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے موجودہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ جس طرح سے ٹرمپ پر اندھا اعتماد کیا گیا تھا اس نے ہندوستان کیلئے یہ صورتحال پیدا کی ہے ۔ ٹرمپ ہندوستان اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنی دوستی کے حوالے دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں لیکن وہ ہندوستان کو تجارتی طور پر نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ جس طرح امریکہ پر کئی معاملات میں انحصار بڑھ گیا تھا اس سے ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ تجارت کی بات ہو یا عالمی امور کی بات ہو آزادنہ پالیسی فیصلے کرتے ہوئے کسی کو بھی خود پر یا ملک کے مفادات پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔