امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ

   


امریکی تھنک ٹینک نے اپنی ایک رپورٹ میں ہندوستان کی آزادی پر ہی سوال اٹھادیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ہندوستان جزوی طور پر بی جے پی کا غلام ہوگیا ہے ۔ یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ پر ایک کاری ضرب ہے ۔ ہندوستان نے آزادی کے سات دہوں میں جو ترقی کی ہے اور جو پیشرفت کی ہے اور سار ی دنیا میں ایک مقام بنایا ہے ‘ ایک عالمی لیڈر کے طور پر اس کو قبول کرنے کا آغاز ہوچکا ہے اس کے بعد اگر امریکی تھنک ٹینک کی جانب سے ایسی رپورٹ آتی ہے جس میں مسلمانوں کو ملک میں بلی کا بکرا بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔ ملک میں مطلق العنانی کی بات کی جاتی ہے اور ناقدین پر شکنجہ کسنے کی بات کی جاتی ہے اور حد تو یہ ہے کہ ملک کو بی جے پی کا جزوی غلام قرار دیا جاتا ہے تو یہ انتہائی افسوس کی بات ہے اور اس پر حکومت کو اور سرکاری ذمہ داروں کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس رپورٹ کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہوتی ہے کہ امریکہ ہمارا ایک انتہائی قریبی حلیف اور گہرا دوست ملک ہے ۔ یہ کوئی مخالف ہند موقف رکھنے والا ملک نہیں ہے اور اس نے ہر ہر موقع پر ہندوستان کا ساتھ دیا ہے ۔ دونوں ممالک کے قائدین کی ایک دوسرے سے قربت اور تعلقات کا بھی بڑا چرچہ ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر امریکی تھنک ٹینک کی جانب سے ایسی رپورٹ آتی ہے تو حکومت کو اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور جو حالات بیان کئے گئے ہیں ان کو بہتر بنانے پر توجہ کرنا چاہئے ۔ یہ الزامات ملک میں بھی اکثر و بیشتر عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ مودی حکومت میں مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ نت نئے حربوں سے انہیں ہراساں و پریشان کیا جا رہا ہے ۔ ان کے کھانے پینے اور لباس پر تک تبصرے ہو رہے ہیں۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ انہیں ملک چھوڑ کر پاکستان چلے جانے کو کہا جا رہا ہے ۔ کسی نہ کسی بہانے سے ان کو مار پیٹ کے ذریعہ ہلاک کرنے سے تک گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ لو جہاد کے نام پر ہو یا پھر بیف کے نام پر ہو انہیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ ان میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مسلمان اگر تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے تعلیمی شعبہ میں آگے بڑھتے ہیں تو اسے یو پی ایس سی جہاد قرار دیا جاتا ہے ۔ تجارت میں انہیں کمزور کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازمتوں اور قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی کو مسلسل گھٹا دیا گیا ہے ۔ اس ساری صورتحال پر ملک کے مسلمان بھی بے چین ہیں اور اب ساری دنیا میں اس کا چرچہ ہونے لگا ہے ۔ مختلف بیرونی اداروں کی جانب سے حکومت کی پالیسیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور تبصرے کئے گئے ہیں۔ ملک میں مخالفانہ آوازوں کو کچلنے کیلئے بھی جو طریقے اور ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں انہیں بھی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ یہ درست ہے کہ مرکزی حکومت مخالفانہ آواموں کو برداشت کرنے تیار نہیں ہے ۔ اختلاف رائے کو دشمنی کی شکل دی جا رہی ہے ۔ حکومت پر تنقیدیں کرنے والوں کو ملک کے غدار قرار دیتے ہوئے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو تک نہیں بخشا جا رہا ہے ۔ ملک کو مایہ ناز سپوت دینے والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی تک کو بدنام کیا جارہا ہے ۔ صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ غرض یہ کہ حکومت کسی بھی مخالفانہ آواز یا شخصیت کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور غیر معلنہ طور پر آمرانہ طرز عمل اختیار کرلیا گیا ہے اور اسی بات کو رپورٹ میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
رپورٹ میں جو سب سے اہمیت کا حامل ریمارک ہے وہ یہ ہے کہ ملک کو جزوی طور پر بی جے پی کا غلام بنادیا گیا ہے ۔ یہ ملک کی آزادی پر تبصرہ ہے اور اس صورتحال کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ کثرت میں وحدت کی بہترین مثال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ تاہم اس ملک کو ایک ہی نقطہ نظر کا حامل بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو ہندوستان کی شاندار شناخت اور ورثہ کے مغائر ہیں۔ حکومت کو اکثریت کے زعم میں مبتلا رہنے کی بجائے عوامی ترجیحات اور خواہشات کو پیش نظر رکھنے اور ملک کی جمہوری ڈھانچہ کو مستحکم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا بھر میں ملک کی منفرد شان برقرار رہ سکے ۔