امریکی سینیٹر کا مکتوب امریکی ایم پی محمد خان کے نام

   

واشنگٹن 30؍ جنوری 2020
ڈیئر ڈاکٹر محمد خان !
مجھ سے رابطہ کرنے پر آپکا شکریہ۔ میں یہ جانتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اس پر آپکو تشویش ہے لہٰذا یہ میرا فرض ہے کہ آپ جو بھی اس مکتوب کے ذریعہ کہنا چاہتے ہیں میں اس پر غور کروں۔ آپ نے حالیہ دنوں میں ہندوستان میں ہونے والی زبردست تبدیلیوں اور خصوصی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے پر تشویش کا اظہار کرنے کیلئے مجھ سے رابطہ کیا ہے جس میں سب سے پہلے جموں و کشمیر کے دفعہ 370 کی منسوخی کا ہے اور اس کے بعد ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھے جانے جن میں ماب لنچنگ کے واقعات بھی شامل ہیں۔ یہ بات آپ خود بھی جانتے ہیں کہ مودی حکومت میں مسلمانوں کو ہندو قوم پرستوں کی جانب سے ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بڑھ چکا ہے۔ جہاں تک امیگریشن کا سوال ہے وہاں شہریت (ترمیمی) قانون (CAA) کے ذریعہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینیوں، پارسیوں اور عیسائیوں کو ہندوستان آنے کی اجازت دی گئی ہے اور انہیں ہندوستانی شہریت بھی دی جائے گی۔ صرف مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ مسلمان کو ’’مسلمان‘‘ ہونے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور وہ ہندوستانی شہریت حاصل نہیں کرسکتے۔ ہندوستان کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے 5 اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف دفعہ 370 کو منسوخ کرتے ہوئے اسے مرکز کے تحت دو سرحدات جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس خطہ میں ہزاروں فوجیوں کو تعینات کردیا گیا اور کئی اہم ہندو یاتراؤں (امرناتھ یاترا وغیرہ) کو روک دیا گیا اور سیکوریٹی کی دہائی دیتے ہوئے وہاں موجود سیاحوں کو بھی فوری وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ امریکہ نے ہمیشہ سے ہی جموں و کشمیر تنازعہ کو ہندوپاک کا تنازعہ ہی سمجھا ہے جس کی یکسوئی صرف دونوں ممالک کی بات چیت کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کشمیری عوام کی رائے کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ 5 اگست کو جب جموں و کشمیر کے اہم قائدین کو نظربند کردیا گیا تھا تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے بھی تشویش کا اظہارکیا تھا (نظربند قائدین کی آج تک رہائی عمل میں نہیں آئی ہے)
مسٹر خان، آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ ایک سینیٹر ہونے کے ناطے میں آپ کو اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مسلمانوں کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا اور اگر ہندوستان کے خلاف امریکی سینیٹ میں کوئی قانون سازی کی گئی تو اس وقت بھی آپ کے خیالات میرے ذہن میں رہیں گے۔
میں ایک بار پھر آپکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے وقت نکال کر مجھ سے ربط پیدا کیا۔ امید ہے کہ آپ مسلسل ربط میں رہیں گے۔
آپکا
چک گراسلی
امریکی سینیٹ