امریکی شہریوں کا آج اہم دن

   

Ferty9 Clinic

دیکھ لینا تم کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
اور ہی کچھ باغ عالم کی ہوا ہوجائے گی
امریکی شہریوں کا آج اہم دن
امریکی صدارتی انتخاب کے لیے آج رائے دہی کا عمل مکمل ہوجائے گا ۔ یہ انتخابات موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے وقار کا مسئلہ سمجھے جارہے ہیں ۔ ری پبلکن کے برسر اقتدار صدر کی حیثیت سے انہیں پہلی میعاد میں ہی شکست ہوتی ہے تو وہ 1992 کے سینئیر جارج ڈبلیو بش کی ناکامی کے بعد دوسرے ری پبلکن صدر ہوں گے ۔ جنہیں وائیٹ ہاوز میں ہونے کے باوجود شکست ہوگی ۔ سال 2020 امریکہ کے عوام کے لیے قہر بن کر نازل ہوا ہے ۔ کورونا وائرس سے تباہ امریکہ اور معاشی طور پر پریشان کن حالات کا سامنا کرنے والے امریکی شہریوں کے سامنے آئندہ چار سال کے لیے صدر کا انتخاب کرنا اہم مسئلہ ہے ۔ امریکہ کی نصف آبادی سے کم لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کو اس لیے پسند کررہے ہیں کیوں کہ انہوں نے امریکیوں خاص کر سفید فام باشندوں کو اولیت دی ہے ۔ سیاہ فام شہریوں کی رائے مختلف ہے کیوں کہ حالیہ مہینوں میں امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کی اموات اور زیادتیوں کے بعد امریکہ بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں ۔ صدارتی انتخاب سے عین ایک ہفتہ قبل ہی امریکی شہر فلاڈ لفیا میں بھی ایک سیاہ فام کی موت کے بعد پرتشدد احتجاجی مظاہرے ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخابی امکانات پر ضرب لگا سکتے ہیں ۔ 3 نومبر کو امریکی ووٹرس اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا ڈونالڈ ٹرمپ کو مزید چار سال کے لیے وائیٹ ہاوز کا مکین بنایا جائے یا ڈیموکریٹک کے امیدوار سابق نائب صدر جوبائیڈن کو منتخب کیا جائے ۔ جوبائیڈن اگرچیکہ امریکی سیاست کے ایک سینئیر اور کہنہ مشق سیاستداں ہیں وہ 1970 سے امریکہ کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں ۔ وہ بارک اوباما کے نظم و نسق میں نائب صدر امریکہ بھی رہے ہیں ۔ جوبائیڈن کو ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے لیکن ان کی یہ سبقت لمحہ آخر میں نتائج کا رخ بدل سکتی ہے ۔ کیوں کہ سابق میں 2016 کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار ہلاری کلنٹن کو ٹرمپ سے آگے بتایا جاتا رہا تھا اور انہوں نے ٹرمپ سے 30 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے مگر وہ پھر بھی ناکام رہیں کیوں کہ امریکہ میں الیکٹورل کالج کا طریقہ کار استعمال ہوتا ہے کسی کو زیادہ ووٹ مل جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انتخاب جیت جائے گا ۔ اس مرتبہ بھی ٹرمپ کے مقابل ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن کو زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں لیکن کامیابی کس کے مقدر میں ہوگی یہ تو امریکی رائے دہندوں یا انتخابی عمل کے پس پردہ کام کرنے والی طاقتیں فیصلہ کریں گی ۔ جوبائیڈن کو قومی رائے شماری میں ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے مگر اس حقیقت کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ اپنی دوسری میعاد کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک کوشش کرسکتے ہیں ۔ امریکہ کا یہ انتخاب ساری دنیا کے لیے اہم ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی اور ناکامی سے دنیا کے مختلف ملکوں کی قسمت بھی بدل سکتی ہے ۔ اگر ٹرمپ کو شکست ہوتی ہے تو اس کا اثر ہندوستان کی سیاست پر بھی پڑے گا ۔ ٹرمپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ کا دوبارہ صدر ہونے میں کافی جدوجہد کرتے دیکھا جارہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی کامیابی کے لیے بیالٹ باکسوں سے لے کر دیگر کئی طریقوں سے دھاندلیاں کرسکتے ہیں ۔ بہر حال جوبائیڈن کے بارے میں عوامی رائے کافی مضبوط ہے ۔ وہ چار سال قبل ہلاری کلنٹن سے زیادہ بہتر مظاہرہ کررہے ہیں ۔ ان انتخابات میں ہندوستانی نژاد امریکی شہریوں کے ووٹ کا فیصلہ بھی تاریخ ساز ہوگا ۔ ٹرمپ کی ایمیگریشن پالیسیوں سے کئی ہندوستانی ناراض ہیں ، تاہم مودی حکومت سے ان کی قربت کچھ رنگ لاتی ہے تو ہندوستانیوں کے ووٹ ان کے کام آئیں گے ۔ جوبائیڈن کی پالیسیوں نے ایمیگریشن کے معاملہ میں ہندوستانیوں خاص کر آئی ٹی شعبہ سے وابستہ افراد کے چہروں پر خوشی لائی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کو وائیٹ ہاوز کو خالی کرنا پڑے گا ۔ امریکہ کے اب تک کے انتخابات میں اس مرتبہ کے انتخاب کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے ۔ اس انتخاب کو اب تک سب سے زیادہ مصارف والا الیکشن قرار دیا جارہا ہے ۔ ٹرمپ اپنی دولت کے سہارے فتوحات حاصل کرنے میں بہت تیزی سے آگے جاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔۔