امریکہ کے صدر کا انتخاب نہ صرف امریکی عوام کے لیے اہم ہوتا ہے بلکہ ماباقی دنیا کے لیے بھی یہ انتخاب اہم معنی رکھتا ہے۔ عالمی طاقت کے حامل ملکوں میں امریکہ کو دنیا کا واحد سوپر پاور ملک مانا جاتا ہے ۔ وائیٹ ہاوز کا مکین کون ہوگا ؟ ری پبلکن یا ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کو الکٹورل کالج ووٹ میں سے 270 کے جادوئی ہندسے کو حاصل کرنا ضروری ہے ۔ موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دوبارہ اقتدار ملنے کی صورت میں سفید فام امریکی باشندوں کے فیصلہ کن ووٹ کام آئیں گے جب کہ ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن کو صدر منتخب کیا جائے تو پھر ان کے بقول امریکہ کی جمہوریت کو بحال کرنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب کے نتائج پر ہر کوئی نظر رکھا ہوا ہے ۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت مستحکم ہیں ۔ وائیٹ ہاوز کی قیادت میں تبدیلیوں کا قابل لحاظ اثر دیگر ملکوں کے ساتھ باہمی تعلقات پر بھی پڑتا ہے ۔ گذشتہ چار سال کے دوران صدر ٹرمپ نے چین کے حوالے سے امریکہ کی طاقت کو گروی رکھدیا تھا ۔ چین کی طاقت میں دن بہ دن اضافہ کے پیچھے ٹرمپ کی بعض پالیسیاں بتائی جاتی ہیں ۔ ٹرمپ کی وجہ سے ہی آج چین کو عالمی امور میں اپنا اثر اور اپنی طاقت بڑھانے کا موقع ملا ہے ۔ کئی ایک شعبوں میں چین کو امریکہ پر برتری حاصل ہورہی ہے ۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے ہر موقع پر چین کے خلاف عالمی فورم میں آواز اٹھائی ہے ۔ ماحولیات کی تبدیلی اور کورونا وائرس کے معاملہ میں عالمی صحت تنظیم سے علحدہ ہونے کا فیصلہ ٹرمپ کے صدارتی امکان پر پڑ سکتا ہے ۔ وائیٹ ہاوز کے لیے دوڑ نے ٹرمپ کو غیر یقینی کیفیت سے بھی دوچار کردیا ہے ۔ اپنی اربوں کھربوں کی دولت اور تجارت کو مزید تقویت دینے کے لیے وہ امریکی رائے دہندوں سے دوبارہ صدر بنانے کی اپیل کرتے آرہے تھے ۔ ان کے حریف امیدوار بائیڈن نے امریکی رائے دہندوں سے اپیل کی تھی کہ امریکہ کے مستقبل کو بہتر بنانے اور امریکی جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے انہیں ووٹ دیں ۔ امریکہ خود کو سب سے بڑا جمہوری ملک مانتا ہے لیکن تازہ صدارتی انتخاب کے دوران جو کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں اس سے امریکی جمہوریت پر کئی سوال اُٹھے ہیں ۔ جمہوریت کے اسٹیج پر ہونے والا یہ کٹھ پتلی تماشہ اور اقتدار کے نام پر مزید اختیارات حاصل کرنے کی دوڑ کو شاید جمہوریت ہی کہا جاتا ہے ۔ ہر بڑی طاقت جمہوریت کی آڑ میں اپنی پالیسیاں روبہ عمل لاتا ہے ۔ اس طرح کے جمہوری ملک میں جب کبھی ووٹ ڈالے جاتے ہیں ۔ انتخابات کے نام پر ووٹ کا سرقہ کرنے کے الزامات عائد ہوتے ہیں جس سے عوام کی رائے ہمیشہ کی طرح مشکوک بنادی جاتی ہے ۔ امریکہ کے 10 کروڑ رائے دہندوں نے پہلے ہی ووٹ دیا ہے ۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اس مرتبہ اہم موضوع کوویڈ 19 سے نمٹنے صدر ٹرمپ کی ناکامی ، صحت عامہ ، ماحولیاتی آلودگی اور سفید فام نسل پرستی کا رجحان تھا ۔ امریکی سیاہ فام شہریوں پر ظلم و زیادتیاں ، ہلاکتوں کے واقعات نے امریکہ کو عین صدارتی انتخاب سے قبل تشدد کی آگ میں جھونک دیا گیا تھا ۔ انتخابات کے دوران ہی فلاڈ لفیا میں ایک سیاہ فام کی پولیس کے ہاتھوں موت پر شدید پُرتشدد احتجاج ہوا تھا ۔ سال 2016 کے انتخاب میں ٹرمپ نے امریکہ کو سرفہرست لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن امریکیوں کی بڑی تعداد آج بیروزگاری کا شکار ، کورونا وائرس پر قابو پانے میں ٹرمپ کی ناکامی پر عوام شدید برہم بھی ہیں ۔ اس لیے ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن نے سب سے پہلے امریکیوں کو وباء سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کا وعدہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے عالمی سطح پر امریکہ کی قیادت کو داؤ پر لگادیا ہے ۔ لیکن وہ امریکہ کی عالمی قیادت کو بحال کرنے کا عہد کرتے ہیں ۔ بائیڈن کا انتخاب ہوتا ہے تو وہ ٹرمپ کی کئی خارجہ پالیسیوں کو بھی واپس لے لیں گے ۔ ایران نے واضح طور پر کہدیا ہے کہ امریکہ کے صدارتی نتائج جو کچھ ہوں اس کا ایران پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے کے یہ صدارتی نتائج عالمی سطح پر کیا رنگ لاتے ہیں۔۔
