امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ

   

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے دنیا بھر میںمذہبی آزادی سے متعلق امور پر ایک رپورٹ جاری کی ہے ۔ محکمہ خارجہ سے یہ رپورٹ تقریبا ہر سال جاری کی جاتی ہے جس میں دنیا بھر میں مذہبی آزادی اور اس پر ہونے والے حملوںکا احاطہ کرتے ہوئے ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس رپورٹ میں حالیہ وقتوں میں ایک سے زائد مرتبہ ہندوستان کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں اور ہراسانیوں کے علاوہ ان کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات کرے ۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس سے قبل بھی اسی طرح کی رپورٹس جاری کرتے ہوئے ہندوستان کی صورتحال کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اس کے علاوہ کچھ دوسرے فورمس نے بھی اس صورتحال پر اپنی رپورٹس جاری کی تھیں۔ حکومت ہند نے اس رپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے مفروضوں پر مبنی قرار دیا ہے اور اسے مسترد کردیا ہے ۔ جہاں تک امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کا سوال ہے تو یہ ہر سال دنیا کے تمام ممالک کیلئے جاری کی جاتی ہے اور وہاں کے حالات سے دنیا کو آگہی ہوتی ہے ۔ تاہم ہندوستان کے جو حالات ہیں یہ ملک کا داخلی مسئلہ ہے اور اس پر امریکی محکمہ خارجہ ہو یا کوئی اور ادارہ یا فورم ہو اس کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اس پر ہندوستان کا ہر شہری متفق ہوگا ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کے حالات کو مزید ابتر ہونے اور خراب ہونے سے بچانے کیلئے حکومت کو اپنے طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ آج کچھ مٹھی بھر شر پسند عناصر کی جانب سے ملک کے حالات کو متاثر کیا جا رہا ہے ۔ امن و ہم آہنگی کو متاثر کیا جا رہا ہے ۔ اقلیتوںکے خلاف زہر افشانی کی جا رہی ہے ۔ ان کے وجود کو ختم کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کی عبادتگاہوںکو نشانہ بنانے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ یہ سارا کچھ ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے اور سب پر عیاں ہے ۔
کسی گوشے کی جانب سے ہندو برادری کو گھروں میں ہتھیار رکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تو کسی اجلاس میںمسلمانوں کے قتل عام کیلئے اکسانے جیسی مذموم اور سنگین کوششیں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کی عبادتگاہیں نشانہ پر ہیں ۔ انہیں یا تو منہدم کیا جا رہا ہے یا ان میں مورتیاں نصب کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اترپردیش میں تو گھروںمیں باجماعت نماز ادا کرنے پر بھی مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اگر کسی کھلے میدان میں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں تو شرپسند عناصر اس کو بھی نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ساری صورتحال میں یہ بات عام ہے کہ پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اگر مسلمان جوابا احتجاج بھی کرتے ہیںتو انہیں مقدمات میں پھانس کر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے ۔ جیلوں میں سڑنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور ان کی ضمانتیں تک منظور ہونے نہیں دی جاتیں۔ مذہبی رواداری اور بھائی چارہ کی ہماری جو روایات رہی ہیں اور جس کو ساری دنیا میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ان کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ مذہبی جنون کو ہوا دیتے ہوئے سماج کے اہم طبقات کے درمیان منافرت اور دوریوں کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے تعلق سے متنفر کیا جارہا ہے اور اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے خاطر خواہ اور موثر اقدامات نہیں ہو رہے ہیں۔
بعض صورتوں میں سیاسی قائدین بھی اپنے فائدہ کیلئے مذہبی جذبات کو ہوا دیتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہوئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو عناصر ملک کے امن و ہم آہنگی کیلئے خطرہ بن رہے ہیں ان کے خلاف کارروائیاں بھی نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بھی بلند ہونے لگتے ہیں۔ امریکی رپورٹ ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن ملک کی صورتحال کا ہم کو اپنے طورپر تو اعتراف کرتے ہوئے اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات ضرور کرنے ہونگے ۔ ہم اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے ذمہ دار ہیں اور اس ذمہ داری کی تکمیل سے کسی کو بھی گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ چاہے وہ حکومت ہو ‘ سماجی تنظیمیں ہوں یا ملک کے عوام ہوں سبھی کو اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔