امن متاثر کرنے کی سازشیں

   

نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک ‘ پرانا چل رہا ہے

عوام کا یہ تاثر حقیقی اندیشوں کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے کسی ریاست میں انتخابات کا وقت قریب آتا جاتا ہے وہاں فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے کشیدگی میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹاتے ہوئے نفرت کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بی جے پی کیلئے یہ ایک کارگر اور آزمودہ حکمت عملی بن گئی ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بی جے پی نے سیاسی فائدہ حاصل کیا ہے ۔ صرف ایک دہلی ایسا مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے جہاں بی جے پی نے ساری کوشش کی لیکن اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ یہی کوشش مغربی بنگال میںکی گئی تھی جہاں بی جے پی اقتدار حاصل نہیں کرپائی لیکن اس کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ یہی طریقہ کار ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اختیار کیا گیا جہاں بی جے پی کیلئے اقتدار حاصل ہوگیا ۔ کئی اور ریاستوں میں علاقہ کے جذبات کو دیکھتے ہوئے فرقہ وارانہ ماحول کو متاثر کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ یہی طریقہ کار اب ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ میں اختیار کیا جا رہا ہے ۔ تلنگانہ ملک کی سب سے نئی ریاست ہے ۔ یہاں آٹھ برس میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دیتے ہوئے ریاست کو کئی شعبوں میں آگے بڑھایا گیا ہے ۔ بی جے پی کے یہاں بمشکل تمام تین ارکان اسمبلی تھے ۔ ایک کو معطل کردیا گیا ہے اور اب صرف دو ارکان اسمبلی ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے جو شائد کبھی پورا نہیں ہو پائیگا ۔ تاہم بی جے پی اس کیلئے یہاں بھی فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی حکمت عملی ہی پر عمل پیرا نظر آتی ہے ۔ حالانکہ رکن اسمبلی راجہ سنگھ کو پارٹی نے معطل کردیا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ ماحول کو پراگندہ کرنے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی گئی تھی اس کی شروعات ہوگئی ہے اور چونکہ راجہ سنگھ کو اس میں دوسروں پر سبقت مل رہی تھی اس لئے ایک تیر سے دو نشانے لگاتے ہوئے راجہ سنگھ کو معطل کردیا گیا ۔ ماحول بگاڑنے کے منصوبے پر عمل بھی شروع ہوگیا ہے ۔ اب راجہ سنگھ کی بی جے پی کو ضرورت نہیں ہے ۔
معطل شدہ بی جے پی رکن اسمبلی نے جو گستاخی کی اور جس طرح سے حیدرآباد کے پرسکون ماحول کو درہم برہم کیا وہ انتہائی مذموم حرکت تھی ۔ سیاسی جماعتوں کے اور سیاسی قائدین کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ حکومتیں بھی اکثر وبیشتر اس کا شکار ہوتی ہیں اور اسی کے تحت کام کرتی ہیں۔ تاہم ریاست کے عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امن و امان کو متاثر کرنے والوں کو ناکام بنائیں۔ شہر میں گذشتہ دنوں سے گستاخی کے خلاف جو احتجاج ہوا تھا وہ ایک مثال ہے ۔ کہیں بھی کسی نے شر انگیزی نہیں کی ۔ نعرہ بازی ضرور کی گئی لیکن کسی برادری اور طبقہ کے خلاف ایک جملہ تک نہیں کہا گیا ۔ کسی دوسرے فرقہ کے لوگوں کی دلآزاری نہیں کی گئی ۔ نہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا گیا ۔ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے پہلے تو پولیس میں شکایات درج کروائی گئیں۔ جب قانونی کارروائی میں جھول محسوس ہوا تو اس کے خلاف احتجاج کیا گیا ۔ کسی کو نشانہ بنائے بغیر اور قانون کی خلاف ورزی کئے بغیر اپنے شخصی جذبات کا اظہار کیا گیا ۔ اس طرح ماحول کو بگاڑنے کی سازشوں کو شہر کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں نے ناکام بنادیا ۔ اسی احتجاج کا نتیجہ تھا کہ رکن اسمبلی کے خلاف مسلسل ٹال مٹول کے بعد حکومت کو بالآخر کارروائی کرنی پڑی ۔ نوجوانوں نے اپنے جذبہ سے حکومت کو کارروائی پر مجبور بھی کیا اور کسی کو بھی انگلی اٹھانے کا موقع دئے بغیر قانون کی پابندی کی اور امن و امان کو متاثر کرنے کے عزائم اور منصوبوں کو ناکام بنادیا ۔
اب جبکہ ریاست کا سیاسی ماحول بھی گرم ہوتا جا رہا ہے اور مذہبی جذبات کے استحصال کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں ایسے میں ریاست بھر کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی کوششوں کو ناکام بنائیں۔ عوام چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سبھی کو سماجی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے ۔ سیاسی قائدین کی اشتعال انگیزیوں اور ان کی سازشوں کا شکار ہوئے بغیر ریاست اور اپنے شہر کے امن کو متاثر کرنے والوں کے خلاف چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کو یہ موقع نہیں دیا جانا چاہئے کہ وہ کسی بھی صورتحال کا استحصال کرتے ہوئے اپنے لئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔