امن و امان اور بقائے باہمآئیڈیل تہذیب و سوسائٹی کے بنیادی مقاصدحضرت شیخ الاسلام کی تحریرات کے آئینے میں

   

آج کا دور تہذیب و تمدن کے عروج و ارتقاء کا دور سمجھا جاتا ہے ، جس میں انسان نے اپنے حوائج و ضروریات کی تکمیل کیلئے ایسے آلات و رسائل ایجاد کرلئے ہیں ، جس کا ماضی میں تصور بھی محال تھا ۔ اس قدر ترقی کی منزلوں کو عبور کیا ہے جس کی کوئی مثال سابقہ ادوار میں نہیں ملتی، تاہم تہذیب و تمدن کی جو روح اور بنیاد ہے وہ مفقود ہوتی جارہی ہے ۔ تہذیب و تمدن کی بنیاد امن و امان ، ہمدردی ، رواداری ، باہمی موافقت و ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش خْلقی ، ملنساری اور عزت و احترام پر ہے ۔ اس دور حاضر میں ہمدردی کے بجائے دلآزاری ہے ، موافقت کی بجائے مخاصمت ہے ، امن و سلامتی کے بجائے تشدد و دہشت گردی ہے ، محبت کی جگہ نفرت و عداوت ہے ، خوش خلقی کی جگہ ناروا سلوک ہے ۔ عدل و انصاف کی بجائے ظلم و زیادتی ہے ۔ طاقتور غالب ہے اور کمزور مظلوم ۔ واضح رہے کہ تعلیم عروج پر ہے ۔ قوانین مدون ہیں۔ ضابطۂ زندگی و دستور حیات مرتب ہے ، حقوق و فرائض معروف ہیں ، جرائم کے ارتکاب پر سزائیں مقرر ہیں ، محاسبہ کے شعبے قائم ہیں ، عدالتیں موجود ہیں گرفت اور مواخذہ کا نظام برقرار ہے ۔ کسی فردبشر کو کسی پر ناروا ظلم و زیادتی کی اجازت نہیں ، بلالحاظ مذہب و ملت ، رنگ و نسل تمام انسان برادری کے حقوق و مراعات محفوظ ہیں ، مذہبی منافرت ، تشدد ، نسلی امتیاز ، علاقائی افتخار ، قومی بڑائی کی کسی صورت میں گنجائش نہیں ۔ حاکم و رعایا سب قانون کے تابع ہیں ، اس کے باوصف انسان کی جو ناقدری و بے حرمتی اس دور میں ہورہی ہے وہ ناقابل بیان ہے ناانصافی ، ظلم و زیادتی ، دشمنی ، انتقام ، قتل و خون سب کچھ قانون کے مطابق جواز فراہم کرکے کئے جارہے ہیں ، افراد تو افراد ملک و ملک کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے ، جن کے ذمہ تہذیب و تمدن کی اصلاح کا مدار تھا وہی تمدن کے فساد کے ذمہ دار ہیں ۔
حضرت شیخ الاسلام عارف باﷲ امام محمد انواراﷲ فاروقی فضیلت جنگؒ بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے تجدیدی خدمات اسی زمانہ کے ساتھ خاص و محدود نہ تھے بلکہ آپ کی دورس نگاہوں نے آئندہ پیش آنے والے حالات کا اندازہ کیا اور مستقبل میں اسلام کی خدمت و استحکام کے لئے اقدامات فرمائے ۔ آپ وہ نابغۂ روزگار ذات گرامی تھی جن کی نظر نہ صرف ہندوستان کے شمال و جنوب میں موجود علماء ، محققین اور مصلحین کی تالیفات ، تحقیقات اور تحریکات پر تھی بلکہ مغرب میں جو تعلیمی اور فکری انقلاب رونما ہورہا تھا ، اس سے بھی آپ کماحقہ واقف تھے ۔ مغربی مفکرین و محققین کی تحقیقات و نظریات آپ کے پیش نظر تھیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مذہبی رہنما جو رفتار زمانہ سے واقف نہ ہو اس سے زمانہ کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی نمائندگی کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ آج امریکہ و مغرب کی یونیورسٹیز میں اعلیٰ پیمانے پر جن موضوعات پر سمینار ، کانفرنس ، علمی مباحثے ہورہے ہیں ایک صدی قبل حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ و الرضوان نے انہی کی کتابوں سے ، انہی کی فہم کے مطابق ، انہی کے طرز پر انہی موضوعات کاانتخاب کرتے ہوئے اسلام اور پیغمبر اسلام صلوات اﷲ و سلامہ علیہ کی حقانیت کو ثابت فرمایا ۔ آپ نے گیارہ جلدوں پر مشتمل ’’مقاصدالاسلام‘‘ کے پہلے حصہ کی ابتداء ’’ایمان اور تمدن‘‘ کے عنوان سے کی اور اس موضوع پر تقریباً (۴۷) صفحات تحریر فرمائے جس کی ضروری تشریح کی جائے تو ہزاروں صفحات سیاہ ہوجائیں گے ۔ افسوس کہ آج تک مغربی دنیا کے سامنے حکمت و دانائی کی انمول تحریرات پیش نہ کی جاسکیں۔ آپ اپنے رسالہ ’’ایمان اور تمدن‘‘ کے آغاز میں رقمطراز ہیں : ’’یہ امر پوشیدہ نہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے یعنی آدمیوں کی طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ مثل حیوانات کے جنگل میں تنہا اقامت نہیں کرسکتا بلکہ چند ابناء جنس ملکر ایک بستی آباد کرلیتے ہیں مگر چونکہ طبائع مختلف ہوتے ہیں اور اکثر طبیعتوں میں خودغرضی ، تکبر اور ظلم و تعدی ہوا کرتی ہے اس وجہ سے تمدن اکثر خطرناک حالت میں رہا گیا جس کی اصلاح کے لئے حکماء نے بھی قواعد ایجاد کئے اور انبیاء و سابق بھی اس کے متعلق کچھ نہ کچھ احکام سنایا کئے ، مگر جب ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے اس طورپر تمدن کی اصلاح فرمائی کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو تمام بندگانِ خدا شہر و قریہ میں نہایت آسائش سے زندگی بسر کرسکتے ہیں ‘‘۔ (مقاصد الاسلام حصہ اول ص : ۲)
حضرت شیخ الاسلام نے ’’تمدن‘‘ کو سعادت دنیوی اور انسان کے لئے دنیا میں سب سے عظیم نعمت سے تعبیر فرمایا : ’’الحاصل تمدن کی بنیاد فطرتی طورپر ڈالی گئی جس سے اس مکرم نوع انسانی کو سعادت دنیوی کے حاصل کرنے کا موقع ہاتھ آگیا اب اگر باوجود اتنے فضل و کرم کے کوئی شخص کفرانِ نعمت کرے اور ایسے افعال کا مرتکب ہو جو خلاف مرضی خالق اور تمدن کو ضرر پہنچانے والے ہوں تو اس پر ’’وہ چوپاؤں کے مانند بلکہ ان سے بھی بڑھکر گمراہ ہیں ‘‘ پورے طورپر صادق آجائیگا … جب کل افراد انسانی تمدن کو نعمت عظمیٰ سمجھتے ہیں تو چاہئے تھا کہ ہمیشہ اس کی حالت درست رہتی اور ہر شہر و قریہ میں امن و امان قائم رہتا جو روح تمدن ہیں اور جس طرح اس کی بنیاد ہمدردی پر رکھی گئی ہے اس میں تغیر نہ آتا حالانکہ مشاہدہ اس کے برخلاف گواہی دے رہا ہے کہ بجائے ہمدردی ، دلآزاری ہے اور بجائے امن قائم کرنے کے وہ تدابیر سوچی جاتی ہیں جن سے بدامنی اور بے اطمینانی پھیلے ‘‘ ۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ و الرضوان نے تمدن کے بگاڑ کے لئے ظالم حکومت وقت کو اہم ذمہ دار قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’ظالم صرف اپنی ذاتی قوت سے تمدن کو ضرر پہنچاتا تھا اور یہاں اس کے ساتھ قوتِ حکومت مددگار ہے ۔ اگر کتب تواریخ دیکھی جائیں تو صفحے کے صفحے ایسے حکام کے حالات سے سیاہ نظر آئیں گے ۔ جب حکام جن کی ضرورت صرف اصلاح تمدن کے لئے عقل سے ثابت ہے خود خرابی تمدن کا باعث ہوں تو بتائیے کہ اس کے بعد اصلاح تمدن کی کیا امید ہوسکتی تھی‘‘۔
آپ نے ان حکماء پر تعجب کا اظہار فرمایا جو صرف سعادت دنیوی کی غرض سے حقائق اشیاء میں غور و فکر کئے اور دنیوی منافع حاصل کرلئے لیکن خدائے تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کی ، فرماتے ہیں : ’’اتنا تو جانا ہوتا کہ جس عقل کے ذریعہ یہ سعادتیں حاصل ہوئی ہیں نہ اس کو اپنی ذات سے پیدا کیا ، نہ کسی سے مستعار لیا آخر وہ بھی عدم سے وجود میں آئی اور کسی چیز کا وجود میں آنا ممکن نہیں جب تک خالق اس کو وجود نہ دے۔ ادنیٰ جھونپڑی خود بخود نہیں بن سکتی تو پھر اتنا بڑا عالم اور عقل جیسی بے نظیر چیز بغیر خالق کے بنائے کیونکر بن گئی ‘‘۔ (مقاصد الاسلام حصہ اول ص : ۳۰)
بناء بریں آپ ایمان کو اصلاح و تمدن کا پہلا قدم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ ہر طالب علم جانتا ہے کہ وہ ( ایمان ) امن سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی امن دینے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ اصلاح تمدن کامدار امن کے قائم رکھنے پر ہے ، اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ خود لفظ ایمان سے ثابت ہے کہ اصلاح تمدن لوازم ایمان سے ہے یعنی جب ایمان کے معنی پورے طورپر مستحق ہوجائیں تو امن و امان کا تحقق ہوگا جس سے خود تمدن کی اصلاح ہوجائیگی ۔ (مقاصد الاسلام حصہ اول صفحہ ۳۔۴)