امن کی اذاں سنیے کربلا کے سایے میں

   

سید علی طاہر عابدی
کربلا کی جنگ نے ایک عجیب منظر پیش کیا ۔ ایک طرف لشکر ظلم و ستم جو مکمل جنگی تیاری کے ساتھ ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں سپاہی بھی ہیں ،مورچے بھی ہیں ۔ ہتھیار بھی ہیں ، رسد کا معقول انتظام بھی ہے۔ فوجوں کے انتہائی موزوں ترین مقام پر پڑاؤ ڈال رکھا ہے ۔
دوسری طرف بہتر (۷۲) نفوس پر مشتمل ایک جماعت ہے جس میں بچے بھی ہیں ، بوڑھے بھی ہیں ، جوان بھی ہیں ، خواتین بھی ہیں ، سازوسامان کی قلت کا یہ حال ہے کہ چالیس افراد کے پاس گھوڑے ہیں اور باقی پاپیادہ۔ حکمت عملی یہ ہے کہ نہر کے کنارے پڑاؤ ڈالتے ہیں لیکن جب حزب مخالف معترض ہوتاہے تو رفع شر کے لئے ساحل سے دور جھلستے ہوئے میدان میں خیمے نصب کردیئے جاتے ہیں ۔ یہ جماعت میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین واطفا ل بھی ہیں ۔ فوجی طاقت جمع کرنا درکنار یہاں جو لوگ ساتھ آگئے ہیں ان سے بھی لڑائی کا دن شروع ہونے سے قبل ، آخر شب ڈھلتی ہوئی ساعتوں میں چراغ بجھاکر کیا جاتا ہے کہ دشمن کو صرف میرے سر کی ضرورت ہے ۔ میں تمہیں اپنی بیعت سے آزاد کرتا ہوں ، تمہیں اجازت ہے کہ رات کی تاریکی میں جدھر چاہوچلے جاؤ۔ رسد کا یہ عالم ہے کہ دشمن محاصر ہ کرلیتا ہے تو اتنابھی ذخیرہ نہیں کہ پانی سے خشک ہونٹ تر کئے جاسکیں اور دانے سے پیٹ کی تواضع کی جاسکے ۔ تین دن کی بھوک پیاس میں میدان کارزار گرم ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مٹھی بھر جانثا ر اپنی جان کے نذرانے پیش کرکے موت کی میٹھی نیند سوجاتے ہیںاور شام ہوتے ہوئے خود سردار فوج بھی منزل شہادت سے گزر کر مفتوحین کی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے مگر کیا سرفراز مفتوح ہے اور کیا ناہنجار فاتح ہے کہ دنیا آج تک فاتح کا نہیں ، مفتوح کا کلمہ پڑھ رہی ہے ۔ اور جس کے نام و نشان کو مٹانے کے لئے دنیا کوشاں تھی ، وہ بے کس نہیں بلکہ فیاض ہے ، حق شناس ہے ، اولوالعزم ہے ، ذی شعور ہے ، خوش فکر ہے ، بذلہ سنج ہے ، ہنر پرور ہے ، غیور ہے ، ساونت ہے ، بردبار ہے ، فلک مرتبت ہے ، دلیر ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ رودادکربلا دراصل کوئی عام جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان ازل سے جاری اس معرکہ کا ایک اہم باب ہے جس میں انسانی شرافت و صداقت کا مقابلہ حیوانی ذلالت و گمراہی سے ہے ۔ اصول پسندی کا مقابلہ نفس پروری سے ہے ۔ انسان دوستی کا مقابلہ ظلم و جبر سے ہورہا ہے۔شہادت حسین علیہ السلام کا یہی فلسفہ وہ بنیادی قدر ہے جو عصر حاضر میں معرکہ کرب و بلا اوران مرثیوں کو جن میں اس معرکے کی گونج ہے ، محدود مذہبی حلقے کے باہر عامۃ الناس کے لئے بامعنی بناتا ہے ۔
واقعات کربلا کی یہی آفاقی قدریں ہیں جو اچھائی اور برائی کی پرکھ کے لئے کسوٹی بن گئے ۔ قدم قدم پر راست بازی ، خوف خدا ، عبادت گزاری ، مردانگی ، انسانی ہمدردی اور بہادر ی قول وعمل سے برابرسامنے آتی رہی ہے ۔
معرکہ کرب و بلا کو تقریباً ۱۴۰۰ برس بیت چکے ہیں مگر خیر و شر کی جدوجہد آج بھی جاری ہے جیسے امام مظلوم نے اپنے قول و عمل کے ذریعہ ایک نیاموڑ دیا تھا۔ در اصل امام حسین علیہ السلام اس پیغام کے امین بھی تھے اور نقیب بھی ۔ داعی بھی تھے اور اللہ کی طرف سے حجت بھی تھے ۔ وہ پیغام جو غار حرا سے مکہ کی گلیوں میں مدینہ کی شاہراہوں سے بلند ہوتا ہوا اقطاع عالم میں گونجا تھا وہ پیغام جس نے انسان کو ایک ضابطہ حیات دیا تھا، وہ پیغام جس نے آدم ؑ ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ اورتمام انبیاءکی تعلیمات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام کی شکل میں قطعی صورت اختیا ر کرلی تھی ۔ اسی پیغام کو بذریعہ نماز ، حسین علیہ السلام نے بچالیا۔ امام حسین علیہ السلام کی ہی نما ز تھی جس کا احترام اور جس کا اعتراف فرات کی موجوں نے بلند ہوکر کیا۔ آسمان پر چلتی ہوئی آندھیوں نے کیا، آفتاب نے پیشانی پر سجدے کا نشان بنا کر کیا۔ غرض کہ حسین علیہ السلام کا یہ پیغام سرزمین کربلا تک محدود نہ رہا بلکہ صدیوں کا شوراس آواز کو دبا نہ سکا۔ حسین علیہ السلام کے سجدۂ آخرنے ثابت کردیا کہ شاہوں کا جلال و جبروت فنا ہوتا ہے اور غرور و نخوت میںبسےہوئے سر ٹھوکروں میں رہتے ہیں ۔ اللہ کے حضور میں جھکنے والا سر ، سربلند و سرفراز ہوتا ہے ۔