نئی دہلی۔ 10 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) 2020ء آپ کی مادری زبان معلوم کرنا چاہتا ہے جبکہ 2010ء میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ دوسری طرف ملک کے وزیر داخلہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ این پی آر کے ذریعہ ہندوستان کے غریبوں کو ترقی کے راستہ پر گامزن کیا جاسکے گا۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کسی کی مادری زبان معلوم کرنے سے اس کی ترقی کا کیا تعلق ہے؟ مردی شماری میں لسانیات کا ڈیٹا پہلے ہی حاصل کیا جاچکا ہے تاہم مردم شماری کے ذریعہ صرف کسی شہر ،گاؤں اور تحصیل میں بولی جانے والی زبانوں کی تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں جس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ رام کمار کونسی زبان بولتا ہے اور اس کا پڑوسی محمد خان کونسی زبان بولتا ہے یا پھر محمد خان کے پڑوسی جوزف کی زبان کیا ہے جس کے لئے ہم 1948ء کی اس تفصیل میں چلتے ہیں جب مردم شماری ایکٹ کو منظور کیا گیا تھا۔ اس وقت انسانیت اور انسانوں کی قدر کے علاوہ انسانوں کی پرائیویسی کی قدردانی بھی کی جاتی تھی، تاہم اب امیت شاہ صرف موبائیل فون کا ایک بٹن کلک کرتے ہوئے ہر ہندوستانی شہری کی مادری زبان جاننا چاہتے ہیں جس کے لئے امیت شاہ ترقی کی دہائی دے رہے ہیں۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ نریندر مودی کے ترقیاتی کاموں کو ہماری مادری زبان سے کیا لینا دینا ہے یا پھر اسے ہمارے آدھار کارڈ نمبر، ڈرائیونگ لائسنس نمبر، پاسپورٹ نمبر، ووٹر آئی ڈی نمبر اور نہ جانے دیگر کن کن دستاویزات سے جوڑا جانے والا ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ آپ کا پیان کارڈ تو آپ کے آدھار سے منسلک ہوچکا ہے لہذا اس کی این پی آر میں ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیا آپ کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر امیت شاہ ہر فرد اور ہر خاندان کی مادری زبان کے بارے میں معلومات کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل امیت شاہ نے ہندوستان کی رابطہ کی زبان کیلئے انگریزی کے بجائے ہندی کے استعمال کی سفارش کی تھی۔ آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ ہندوستان میں ڈیٹا پرائیویسی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے، لہذا یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حکومت ہند کا ہر شہری کو مادری زبان یہ کہہ کر معلوم کرنے کی کوشش کرنا کہ یہ ترقیاتی عمل میں کارکرد ثابت ہوگی۔
