غضنفر علی خاں
آخرکار وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، دہلی کے فسادات، وہی تباہی، خون خرابہ یوں ہی نہیں ہوا، یہ فساد دراصل شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت اور تائید کرنے والے عوام کے درمیان تھا لیکن کمال یہ ہوا کہ اس احتجاج کو یکطرفہ کردیا گیا۔ ہندوستان بھر میں اسی مسئلہ پر احتجاج ہورہا ہے کہ آیا شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کیا جائے یا نہیں، کبھی بھی اس کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا گیا کیوں…؟ دارالحکومت دہلی میں اس قسم کے احتجاج فرقہ وارانہ نوعیت اختیار کررہے ہیں، خاص طور پر مشرقی دہلی میں کیوں مسلمانوں کو زبردست تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیر داخلہ آنکھیں بند کرکے یہ خون خرابہ دیکھتے رہے۔ امیت شاہ اس نوعیت کے فسادات و خون خرابوں کے اس لئے ذمہ دار ہیں کہ جو قانون وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں، اس کی مخالفت وہ رتی برابر بھی برداشت نہیں کرتے۔ ان کی اپنی شخصیت میں اور ان کے خود مزاج میں ان کی سرشت میں فرقہ وارانہ فسادات ضرور یاد رکھے جائیں گے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب کسی فساد، کسی حادثہ کے بعد ملک کے دیانت دار لیڈرس استعفیٰ دے دیا کرتے تھے، اس لئے کہ صرف اقتدار نہیں بلکہ وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری کو خوب سمجھتے تھے، ایسا نہیں ہوا کہ کسی بڑے فساد کے بعد ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کسی وزیر نے استعفیٰ دے دیا ہو۔ آفات سماوی ہو یا فرقہ وارانہ فسادات یقیناً قابل گرفت جرم ہے۔ امیت شاہ شخصی طور پر کسی انسانی جان کی ہلاکت کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بات 2002ء میں گجرات میں ہوئے ہندو۔مسلم فساد میں امیت شاہ کے رول سے بھی ثابت ہوتی ہے بلکہ انہیں جو سیاسی عروج حاصل ہوا، وہ گجرات فسادات کے بعد ہی ہوا ہے۔ اس سے پہلے نہ تو وہ اپنی ریاست گجرات میں جانے جاتے تھے اور نہ کوئی مقبول لیڈر تھے اور نہ ان کے کوئی سیاسی مقاصد تھے۔ دہلی ، فسادات کے دوران جلتی رہی، گلی کوچوں و بازاروں میں کھلم کھلا خون خرابہ ہوتا رہا۔ دہلی پولیس نے بھی اس خون خرابہ میں کلیدی رول ادا کیا اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے امیت شاہ نے اپنی زبان تک نہ کھولی۔ ایک وہ بھی دور تھا کہ فسادات نہیں بلکہ آفات سماوی کی وجہ سے بھی وزراء مستعفی ہوجایا کرتے۔ چند دہوں قبل کی بات ہے کہ آلیر جنگاؤں کے ٹرین حادثہ کے بعد مرکزی وزیر ریلوے لال بہادر شاستری نے بغیر کسی دباؤ کے ازخود استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان پر اس استعفیٰ کے لئے کوئی دباؤ نہیں تھا۔ لال بہادر شاستری اپنے دور کے ایک دیانت دار، فرض شناس اور غیرت مند، وزیر و سیاست داں تھے ، ان میں اخلاقی جرأت تھی، اسی لئے انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے استعفیٰ دے دیا تھا، اب کہاں گئے وہ لوگ جو اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کسی عہدہ سے دستبردار ہوجاتے تھے۔
اب تو صرف اقتدار ،سیاست دانوں کی من پسند چیز بن گئی ہے۔ ان میں آج بھی اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنے والے لیڈرس ضرور ہیں لیکن ان کی مثال آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پارلیمنٹ کے جاریہ اجلاس میں اپوزیشن جماعتیں خاص کر کانگریس پارٹی نے متحد ہوکر امیت شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور اس مطالبہ پر اٹل بھی رہے۔ دہلی یوں تو انسانی تاریخ میں کئی بار لٹتی رہی۔ دہلی کے لٹنے کا اور اس کے جلنے کا ذکر عصری تاریخ میں گر نہیں ملتا تو ماضی میں اس کی تباہی کے کئی واقعات سننے و پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن حالیہ تاریخ میں خصوصاً آج کے ہندوستان کی حکمران پارٹی بی جے پی اپنا ایک نیا ریکارڈ بنا رہی ہے۔ اپوزیشن کا مطالبہ محض سنی اَن سنی والی بات نہیں ہے۔ آج کے دور میں جب کے الیکٹرانک میڈیا اتنا طاقتور ہوگیا ہے آناً فاناً فساد یا کسی المناک واقعہ کی خبر دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ دہلی کے فسادات کے بعد ابھی تک نعشیں مل رہی ہیں جس طرح امیت شاہ نے گجرات میں فسادات کے دوران کہرام مچا یا تھا، اب 49 سے زائد انسانوں کی موت کے بعد وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ایلچی امیت شاہ کچھ کہنے اور کچھ ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وزیراعظم تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی آؤ بھگت اور ضیافت میں مصروف تھے، تو انہیں سیر و تفریح کے انتظامات کروانے کیلئے اُن کے پاس وقت ہی وقت تھا، انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ ہندوستان کا دل ’’دہلی‘‘ فساد زدہ ہوگیا ہے۔ جب وزیراعظم کا یہ رویہ ہو تو امیت شاہ کے حوصلے بلند بانگ ہو ہی جائیں گے۔ دہلی کے شاہین باغ میں تمام عقائد سے وابستہ افراد حصہ لے رہے ہیں۔ نہ صرف احتجاجیوں کو گولی مارنے کی بات کی گئی تھی، انہیں گالیوں سے بھی نوازا گیا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا گیا۔ اس بات پر کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہی نسخہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی رونما ہوسکتا ہے۔ اپنے قانون حق کیلئے علاج کروانا کسی بھی زاویے نظر سے ملک سے بے وفائی یا غداری نہیں ہوتی۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جدوجہد اور احتجاج کوئی جرم نہیں ہے۔ عوام کا دستوری حق ہے۔ شاہین باغ میں جاری احتجاج کو روکنے کیلئے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔ احتجاج کو روکنے کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے اپنے دستوری و قانونی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے یہی بات کہی تھی کہ احتجاج عوام کا دستوری حق ہے اور ایسا کرنے سے وہ ملک دشمن نہیں ہوتے۔ اگرچہ کہ یہ مطالبہ قانون شہریت کو واپس لیاجائے سارے ملک کی آواز بن چکا ہے لیکن امیت شاہ کی بات ان پر (عوام) مسلط کی جارہی ہے۔ شاہین باغ کے احتجاج کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے صرف یہی کہا تھا کہ اس احتجاج کی وجہ سے عام آدمی کو دشواری پیش آرہی ہے۔ اس لئے عدالت نے احتجاجیوں کو بطور مشورہ یہ کہا تھا کہ وہ شاہین باغ کے علاوہ کسی اور مقام پر احتجاج کرسکتے ہیں۔ امیت شاہ کون ہوتے ہیں جو دہلی میں اس مسئلہ پر اس قدر ظالمانہ رویہ اختیار کررہے ہیں۔ اس اندیشہ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جو طرز عمل پولیس نے اختیار کیا تھا، وہی طرز عمل دیگر بڑے شہروں میں بھی ہو۔ دہلی کے بعد کولکتہ میں اس قسم کے تشدد کے اندیشے زیادہ ہوگئے ہیں۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ کولکتہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے بی جے پی تن من دھن کی بازی لگائی ہوئی ہے لیکن دہلی کی طرح مغربی بنگال میں بی جے پی کو چنے چبانا پڑے گا۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے بھی بی جے پی امیت شاہ اور خود وزیراعظم نریندر مودی نے اپنا ارادہ اپنے عزائم کا اظہار کردیا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان اب وہ پرامن ،فرقہ واریت سے پاک ملک نہ رہا، اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں اور وہ ہر بازی جیتنا چاہتے ہیں۔ شہریت ترمیم کا کیا ہوا، قانون کی مخالفت میں اور بھی شدید احتجاج ہوں گے کیونکہ یہ قانون ملک کے عوام کیلئے نقصان دہ ہے تو کیا ایسی صورتحال میں امیت شاہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کریں گے اور ملک بھر میں تباہی و ہلاکت کا سلسلہ نہیں چلے گا۔ کیا ملک اس قسم کے قانون کیلئے عوامی جدوجہد کا شکار بن جائے گا۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اس قانون کے نفاذ کی مخالفت ہورہی ہے اور ریاستی اسمبلیوں میں قانون کو نافذ نہ کرنے کیلئے قراردادیں منظور ہوچکی ہیں۔ اگر ان حالات میں بھی امیت شاہ جیسے سیاست داں عوام کے خلاف کھل کر اپنی طاقت کا بے جا استعمال کریں گے۔ ملک بھر میں احتجاج کو ختم کرنے کیلئے بی جے پی کوشش کررہی ہے اور امیت شاہ آج ان فسادات کو ختم کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کررہے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر اور بیانات سیاسی ماحول کو پراگندہ کررہے ہیں۔ امیت شاہ کے علاوہ کئی اور بی جے پی لیڈرس زہریلے بیانات دے رہے ہیں۔ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے بھی پولیس کو طاقت استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بی جے پی اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ امیت شاہ کی وزارت داخلہ کے دور میں ایسے اشتعال انگیز بیانات جاری رہیں گے کیونکہ بی جے پی کو اقتدار کا چسکہ لگ گیا ہے۔ امیت شاہ کو اپنے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یقینا استعفیٰ ازخود پیش کردینا چاہئے، اسی میں ملک کی سلامتی کا یقینی طور پر پھر اعادہ ہوسکتا ہے۔