حافظ صابر پاشاہ
خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔سیدنا عمر بن خطاب ؓتاریخ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبانِ حق پر وہ مضامین جاری کردیئے جو وحی کا حصہ بن گئے۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔ آپؓ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔آپؓ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً ۱۳سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔حضرت سیدنا عمر فاروق ؓوہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کیلئے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی۔’’اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما‘‘۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر ؓایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد ﷺ! اہل اسلام نے حضرت عمر ؓکے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے، اب اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادت انجام دینے لگے۔حضرت عقبہ بن عامر ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔ فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں۔ اسی طرح آپ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔۲۶ ذوالحجہ ۲۳ ہجری کو آپؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ آپؓ شدید زخمی ہوگئے۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے۔یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو اپنے بیٹے سے کہا: میری پیشانی زمین سے لگادو۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان، جان آفرین کے سپرد کردی۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَo آپ ؓکی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی ؓنے پڑھائی۔ آپ ؓکا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن پر محیط ہے۔