انتخابات اور دولت کا استعمال

   

ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھیں گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
ملک یا ملک کی کسی بھی ریاست میں جب کبھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو دولت اور طاقت کا بیجا استعمال کرنے کی شکایات عام ہوجاتی ہیں۔ شائد ہی کوئی جماعت ایسی ہوتی ہے جو دولت کا بیجا استعمال نہیںکرتی ۔ رائے دہندوںکو اپنے کام سے رجھانے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنے کی بجائے انہیں اور ان کے ووٹوںکو ناجائز طریقہ سے کمائی گئی دولت سے خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حالانکہ اسمبلی انتخابات کیلئے امیدواروں پر خرچ کی حد مقرر کی جاتی ہے لیکن شائد ہی کوئی امیدوار جو کسی بڑی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو یا پھر دولت مند ہو وہ اس حد کے اندر رہنا گوارہ کرے ۔ انتخابات کو اب عوامی رائے اور عوام کے مسائل کی بجائے دولت اور طاقت کے استعمال میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ سرکاری طور پر ان دعووں کی توثیق نہیںہوتی لیکن کہا یہ بھی جاتا ہے کہ جو ضمنی انتخابات ہوتے ہیںوہاں ایک ایک حلقہ میںسینکڑوں کروڑ روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اب بھی جبکہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںیہ اندیشے ضرور ہیں کہ یہاں بھی امیدواروں نے سینکڑوں کروڑ روپئے خرچ کرنے تیار رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنی کارکردگی یا اپنی حکومتوں کے کاموں کی بنیاد پر عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی بجائے دولت اور طاقت کے بل پر ووٹ خریدنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ رائے دہندوں کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقتدار ملنے پر جو سہولیات اور مراعات فراہم کرنے کے وعدے کئے جا رہے ہیں وہ تو اپنی جگہ ہیںلیکن رائے دہی سے قبل ووٹ حاصل کرنے کیلئے جو غیر قانونی رقومات خرچ کی جا رہی ہیں وہ جمہوری اصولوں کے مغائر ہیں۔ یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ عوامی نمائندگی کیلئے میدان میں آنے والے امیدوار آتے تو عوام کی خدمت کے بہانے سے ہیں لیکن وہ در اصل اپنی ذاتی دولت کمانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کیلئے سینکڑوں کروڑ روپئے خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ یہ دولت جائز طریقے سے کمائی گئی بھی نہیں ہوتی ۔
راجستھان ہو ‘ مدھیہ پردیش ہو ‘ چھتیس گڑھ ہو ‘ میزورم ہو یا پھر ہماری اپنی ریاست تلنگانہ ہو سبھی ریاستوں میں پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے انتخابی شیڈول کی اجرائی کے بعد سے سینکڑوں کروڑ روپئے ضبط کئے گئے ہیں۔ یہ رقومات غیر قانونی طور پر منتقل کی جا رہی تھیں۔ کئی کروڑ روپئے مالیتی سونا بھی ضبط کیا گیا ہے ۔ رائے دہندوں میں تہواروں کے سیزن میں شراب اور دوسرے تحائف کی تقسیم بھی عام ہوگئی ہے ۔ شراب کی فروخت میںاضافہ ہوگیا ہے ۔ یہ سب کچھ رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہے ۔ جو امیدوار اور جماعتیں واقعی عوام کی خدمت کے جذبہ سے انتخابی میدان میں آتی ہیں ان کیلئے اس قدر بھاری رقومات خرچ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس طرح کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طریقہ سے دولت کمانے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ اس قدر بے دردی سے اور بے تحاشہ انداز میں وہی دولت خرچ کی جاسکتی ہے اور اڑائی جاسکتی ہے جو غیر قانونی طریقے سے کمائی جائے ۔ ایسے میں جو امیدوار دولت اور طاقت کے بل پر انتخابی کامیابی حاصل کرتے ہیں انہیں حقیقی عوامی نمائندے بھی نہیں کہا جاسکتا اور نہ وہ ہوتے ہیں۔ وہ توصرف ذاتی جائیداد اور دولت اور اثاثہ جات بنانے میں مصروف رہتے ہیں اور اس کیلئے جائز و نا جائز کچھ نہیں سوچتے ۔ ان کا اصل مقصد عوامی ووٹ سے منتخب ہوتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہی ہوتا ہے ۔
جہاں تک عوام کی بات ہے تو یہ بھی تشویشناک ہے کہ عوام بھی اب اس طرح کی غیر قانونی دولت حاصل کرنے کے عادی ہونے لگے ہیں۔ وہ بھی حقیقی عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کو پسند کرنے کی بجائے دولت کی ریل پیل او چکاچوند سے متاثر ہونے لگے ہیں۔ ایسے امیدواروںکو ووٹ دئے جا رہے ہیں جو زیادہ قیمت ادا کرسکے ۔ سیاسی قائدین ہوں ‘ امیدوار ہوں یا پھر ووٹ دینے والے عوام ہوں سبھی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے کام نہ کریں جن سے ہماری اپنی جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں۔ جمہوریت کا استحکام اور اس کا فروغ ہی ملک اور ملک کے عوام کے حق میں زیادہ بہتر ہوسکتا ہے ۔