جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات چل رہے ہیں۔ انتخابی مہم شدت اختیار کر گئی ہے ۔ جھارکھنڈ میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی کیلئے مہم اختتامی مراحل میں پہونچ رہی ہے جبکہ مہاراشٹرا اور دوسرے ضمنی انتخابات کیلئے بھی مہم میں تیزی اور شدت پیدا ہونے لگی ہے ۔ ایسے میںسیاسی جماعتوں کی جانب سے عوام تک رسائی کیلئے ہر ذریعہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ کئی حربے اختیار کرتے ہوئے مہم تیز کی جا رہی ہے اور عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو جو دستیاب وسائل ہیں ان کا پوری طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے اور خاص طور پر سوشیل میڈیا کے استعمال میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔سوشیل میڈیا ہر ایک کیلئے قابل رسائی ہوگیا ہے اور عوام کے ہاتھوں میں پہونچ گیا ہے ۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کیلئے اپنے ووٹرس تک رسائی کیلئے یہ ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے اور اس کے ذریعہ سے سیاسی جماعتیں اور امیدوار ووٹرس تک راست رسائی حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ تاہم ایک پہلو اس کا یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے نفرت کو ہوا دینے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ رائے دہندوں اور عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کیلئے وہ طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں جو نہیں کئے جانے چاہئیں۔ مذہبی امور کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ۔ انہیں مذہبی اشتعال دلاتے ہوئے اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جھوٹ اور بے بنیاد خبریں پھیلاتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی منصوبہ بندی ہے اور سوشیل میڈیا استعمال کرنے والوں کے ذہنوں کو متاثر کیا جا رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر نظر رکھنے اور اس کا جواب دینے کیلئے دوسری جماعتیں بھی سرگرم ہیں لیکن جھوٹ پھیلانے اور نفرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف کارروائی کا باضابطہ کوئی اہتمام نہیں ہے ۔ حکومتی سطح پر اس کا نوٹ نہیں لیا جا رہا ہے جبکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف نشاندہی کرتے ہوئے کارروائی کی جانی چاہئے ۔
ایسا نہیں ہے کہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ جو منفی پرچار اور پروپگنڈہ کیا جار ہا ہے وہ صرف جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا تک ہی محدود ہے ۔ یہ درست ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں اس کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے لیکن ملک کی مختلف ریاستوں اور مختلف گوشوں سے ایسا کیا جا رہا ہے ۔ کھلے عام فرقہ پرستی کو ہوا دی جا رہی ہے اور بے بنیاد اور فرضی خبریں پھیلاتے ہوئے سماج میں نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا کی جانے لگی ہے ۔ یہ سلسلہ بھی عرصہ دراز سے جاری ہے تاہم یہ دیکھا جا رہا ہے کہ حالیہ عرصہ میں اس طرح کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے اور منفی تشہیر اور پروپگنڈہ میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ خاص طور پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے باضابطہ سوشیل میڈیا سیل چلائے جا رہے ہیں۔ کچھ تنظیمیں اور ادارے بھی ہیں جو سوشیل میڈیا کیلئے باضابطہ دستے بنا کر ان کے ذریعہ کام لیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے عناصر کے مفادات اور مقاصد کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ ان کی جانب سے کی جانے والی منفی اور جھوٹی تشہیر کی وجوہات کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے ۔ ان کے پس پردہ محرکات کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے اور ان تمام حقائق کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے ۔ کسی کو بھی ملک یا سماج میں نفرت کا فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ایسا کرنے والے عناصر ملک و قوم کی بدخدمتی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء کو متاثر کیا جا رہا ہے اور عوام میں عدم اطمینان کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے ۔
انتخابی امور کا جہاں تک سوال ہے تو اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو بھی حرکت میں آنا چاہئے اور سوشیل میڈیا پر چلائی جانے والی تشہیر اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے قانون کے مطابق اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ جو منفی اور جھوٹا پروپگنڈہ ملک کی دوسری ریاستوں میں ہو رہا ہے ان کا جائزہ لینے اور ان کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی ہے ۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ راست عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے والے عناصر پر لگام کسی جانی چاہئے ۔ ان کا پردہ فاش کرتے ہوئے اس طرح کے پروپگنڈہ کو روکا جانا چاہئے اور سماج میں بے چینی کی فضاء کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔