بیج نفرت کے کیوں بو رہا ہے
دیش میں دیکھ کیا ہورہا ہے
ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابی موسم عروج پر پہونچنے لگا ہے ۔ اس کے علاوہ سارے ملک میں حالات انتخابی موڈ میں آنے لگے ہیں۔ اسمبلی انتخابات کے بعد پارلیمانی انتخابات کیلئے سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی ۔ جہاں تک پانچ ریاستوں میں انتخابات کا سوال ہے تو مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف وعدے کئے جارہے ہیں۔ یہ ہر انتخاب سے پہلے ہونے والا عمل ہے ۔ عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں اور پھر انہیں حالات کی مار کھانے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ کم از کم گذشتہ دس برس میں ملک بھر میں اور کئی ریاستوں میں یہی ہوا ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت نے 2014 سے پہلے عوام کو سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپئے پہونچانے کا وعدہ کیا تھا ۔ مہنگائی کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن عمل اس کے برخلاف رہا ۔ سرکاری اور خانگی نوکریوں کی تعداد گھٹا دی گئی ہے ۔ کئی سرکاری ادارے خانگی حاشیہ برداروں کو سونپ دئے گئے ہیں۔ مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ عوام کے کھاتوں میں پندرہ لاکھ روپئے آنا تو دور کی بات ہے الٹا ان کے بینک کھاتوں سے مختلف بہانوں سے پیسے کاٹے جا رہے ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ میں بھی یہی صورتحال رہی تھی ۔ کے سی آر حکومت نے عوام سے کئی وعدے کئے تھے ۔ گذشتہ انتخابات کے موقع پر نوجوانوں کو بیروزگاری بھتہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اب تک اس پر عمل نہیں کیا گیا اور اب موجودہ معیاد بھی اختتامی مراحل میں پہونچ چکی ہے ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب اس پر سوال کرنے والوں کو غضبناک ہوکر دھمکایا جا رہا ہے ۔ وقف بورڈ کو جوڈیشیل اختیارات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اس کے برخلاف وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کو ہی حکومت نے بند کردیا اور خود وقف بورڈ کے ذمہ داروں کو اس تک رسائی نہیں رہ گئی ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات سے بھی کئی طرح کے وعدے کئے گئے تھے لیکن ان میں سے بے شمار وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور حکومت ان پر جواب دینے کو بھی تیار نہیں ہے ۔
دوسری طرف کانگریس پارٹی ہے جو عوام کو رجھانے والے وعدے کر رہی ہے ۔ یہی وعدے کانگریس نے ہماچل پردیش اور کرناٹک کے اسمبلی انتخابات سے قبل کئے تھے جو تلنگانہ اور دوسری ریاستوں میں دہرا رہی ہے ۔ ہماچل پردیش اور کرناٹک کا اگر جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجائیگا کہ موجودہ دور کی کانگریس پارٹی عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کر رہی ہے ۔ کرناٹک اور ہماچل پردیش کے علاوہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس حکومتوں کی جانب سے گیس سلینڈر پر راحت دی جا رہی ہے ۔کرناٹک میں عوام کیلئے 200 یونٹ برقی مفت دی جا رہی ہے ۔ خواتین کیلئے آر ٹی سی بسوں میں سفر کو مفت کردیا گیا ہے ۔ دوسری اسکیمات پر بھی عمل آوری شروع کی جا رہی ہے یا کردی گئی ہے ۔ اس طرح عوام کے سامنے ایک موقع ہے کہ وہ ان جماعتوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیں۔ کونسی پارٹی یا حکومت ایسی ہے جو وعدے کرتے ہوئے عوام کو دھوکہ دیتی ہے اور ان کے ساتھ فریب کیا جاتا ہے اور کون سی جماعت ایسی ہے جو وعدے کرتی ہے اور اقتدار ملنے پر ان کو پورا کرنے کیلئے بھی اقدامات کرتی ہے ۔ انتخابی موسم میں سیاسی نعروں سے متاثر ہو کر ووٹ کا فیصلہ کرنے کی بجائے کارکردگی کی بنیاد پر اور وعدوں کی تکمیل کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ علاقائی جماعتوں کی مجبوریوں اور سیاسی وفاداری بدلنے کی روایت کو بھی پیش نظر رکھنا موجودہ دور میں بہت ضروری ہوگیا ہے ۔
کرناٹک میں جنتادل سکیولر سے جب مسلمانوں نے عملا دوری اختیار کی اور کانگریس کے حق میں ووٹ دیا تو اس پارٹی نے اپنی اصل سوچ کو آشکار کردیا اور اس نے بی جے پی کے ساتھ آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے اتحاد کرلیا ہے ۔ اس طرح جنتادل سکیولر نے واضح کردیا ہے کہ اسے اب مسلمانوں کی یا ان کے ووٹوں کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔ اسی طرح تلنگانہ ہو یا دوسری ریاستیں ہوں ان کے ریکارڈ کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ انہوں نے کن کن مواقع پر بی جے پی کا ساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ ایک بار ووٹ دینے کے بعد پانچ برس تک انتظار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جاتا ۔ ایسے میں ہر جماعت کی کارکردگی ‘ اس کی سیاسی وابستگیوں اور عوام کے تئیں اس کی سنجیدگی کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔