انتخابات سے قبل فرقہ پرستی کا عروج

   

پھر نیا حادثہ نہ ہو جائے
زندگی پھر سزا نہ ہو جائے
ملک بھر میں بہار اسمبلی انتخابات کیلئے ماحول تیار ہونے لگا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے بھی اس سلسلہ میں اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہیں ۔ ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کا عمل بھی کمیشن نے سارے بہار میں چلایا ہے اور اس پر کچھ کارروائیاں اب بھی جاری ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر دوران ہے اور عدالت نے یہ واضح کردیا تھا کہ اگر اس معاملے سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی تو اس عمل کو عین انتخابات سے قبل بھی روک دیا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے طور پر سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا تھا اور رائے دہندوں کو رجھانے کے اقدامات پر توجہ مرکوز ہوگئی تھی ۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے اتحاد کیلئے بھی سرگرم ہیں۔ کئی جماعتیں آپس میں مفاہمت کرتے ہوئے انتخابات کا مقابلہ کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں ۔ تاہم ایک بات یہ بھی محسوس کی جانے لگی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل ملک کے مختلف مقامات اور مختلف ریاستوں میں فرقہ پرستانہ ماحول کو بگاڑنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی طرح کی تنظیموں یا اداروں سے زیادہ کچھ ریاستوں کا انتظامیہ اورپولیس کی جانب سے ماحول کو بگاڑا جا رہا ہے ۔ اس معاملے میں اترپردیش اور گجرات کی پولیس زیادہ مستعد دکھائی دیتی ہے ۔اترپردیش میں آئی لو محمد ؐ کے بیانرس لگائے گئے تھے ۔ ایک مقام پر بڑا بورڈ بھی لگایا گیا تھا ۔ فرقہ پرست عناصر اور ہندوتوا کارکنوں نے اس بورڈ کو اکھاڑ پھینک دیا ۔ سادہ سے انداز میں اس بورڈ کو زبردستی اکھاڑ پھینکنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے کارروائی کی جانی چاہئے تھی لیکن یو پی پولیس نے اس کے برخلاف کام کیا ۔ اترپردیش کی پولیس مسلمانوں کے خلاف کام کرنے میں شہرت رکھتی ہے اور اسے پوری طرح سے سیاسی سرپرستی بھی اس معاملے میں حاصل ہے ۔ بورڈ نکالنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے بورڈ آویزاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ مقدمات درج کئے گئے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا جس کے نتیجہ میں صورتحال بگڑنے لگی تھی ۔ اگر بورڈ بلا اجازت لگایا گیا تھا تب بھی اس کو نکالنے اور جرمانہ عائد کرنے کی ذمہ داری بلدی حکام پر تھی پولیس پر نہیں ۔
بات اترپردیش ہی میں محدود نہیں رہ گئی بلکہ گجرات میں بھی پولیس نے اس معاملے میں مستعدی دکھائی ۔ گجرات پولیس ایسا لگتا ہے کہ یو پی پولیس سے پیچھے رہنے کو تیار نہیں تھی اور آئی لو محمد ؐ کے بیانرس کے ساتھ مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ۔ کئی نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ۔ بات یہیں تک محدود نہیں تھی بلکہ گجرات پولیس نے یو پی پولیس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو رسیوں سے باندھ کر سڑکوں پر پریڈ تک کروادی ۔ یہ کسی قانون میں گنجائش نہیں ہے کہ اس طرح کی حرکت کی جائے ۔ قانون کی رکھوالی کی ذمہ دار پولیس کی جانب سے ہی خلاف قانون حرکت کی گئی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی حرکت کرنے والوں کی نہ کوئی سرزنش کی گئی اور نہ ہی ان کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ اترپردیش میں بریلی سے تعلق رکھنے والے رہنما مولانا توقیر رضاء نے آئی لو محمد ؐ کے نعرہ سے چلائی جا رہی مہم کی تائید کی تھی ۔ جمعہ کو نوجوانوں نے مذہبی جذبات کے ساتھ مظاہرہ کیا تو پھر اترپردیش پولیس نے مولانا توقیر رضاء کو گرفتار کرلیا ۔ کئی دوسرے نوجوانوں کو بھی حراست میں لیتے ہوئے مقدمات درج کردئے گئے ۔ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے جس طرح کی کارر وائیاں کی جا رہی ہیں ان کا واحد مقصد مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا اور اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ یہ اتفاق سے پیدا ہونے والا ماحول بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلایا جاسکے اور اس کے ذریعہ بہار میں سیاسی اور انتخابی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔
فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے اور اس پر عمل کرنے والے عناصر کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات بھی دئے جا رہے ہیں اور بہار اسمبلی انتخابات سے قبل ماحول کو پراگندہ کرنے کی مہم بھی تیز کردی گئی ہے ۔ انتخابات میں مقابلہ کیلئے فرقہ پرستی کا سہارا لینا بی جے پی کا آزمودہ طریقہ کار رہا ہے اور اب بھی اسی کو اختیار کیا جا رہا ہے ۔ انتخابات میں فائدہ کیلئے ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو حالات اور جذبات کا استحصال کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے ۔ بہار ہو یا سارے ملک کے عوام ہوں انہیں بھی انتخابات میں سیاسی اور ترقیاتی مسائل کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہئے اور مذہبی جذبات کا سہارا لینے والوں کو سبق سکھایا جانا چاہئے ۔
حیدرآباد میں سیلاب کی صورتحال
حکومتوں کی جانب سے شہر حیدرآباد کو عالمی معیار کا شہر بنانے کے مسلسل دعووں کے دوران شہر کی صورتحال آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ گذشتہ دو تا تین سے وقفہ وقفہ سے جاری بارش اور ذخائر آب سے پانی چھوڑے جانے کے نتیجہ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ ترقی کے دعووں کا قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ جس طرح سے نشیبی علاقوں کی بستیاں زیر آب آگئی ہیں اور عوام کو مشکلات پیش آئی ہیں وہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ حکومتوں کی جانب سے ترقی کے دعوے تو کئے جاتے ہیں تاہم واقعتا ترقی کیلئے بہت کم اقدامات کئے جاتے ہیں۔ دکھاوے کے اقدامات پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاہم حقیقی معنوں میں بنیادی صورتحال کو بہتر بنانے پر حکام کی توجہ بہت کم ہی دکھائی دیتی ہے ۔ موسی ندی کے کناروں پر جو بستیاں آبا دہیں ان کی صورتحال زیادہ سنگین ہوگئی تھی اور شہر کی کئی اہم سڑکوں پر تک پانی جمع ہوگیا تھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ڈرینیج نظام اب بھی بہتر نہیں کیا گیا ہے اور پانی کی نکاسی کے اقدامات پر صرف اڈھاک بنیادوں پر نہیں بلکہ جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ بارش کی وجہ سے جو مسائل کھل کر سامنے آئے ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ موثر منصوبے بناتے ہوئے ان پر عمل آوری کو یقینی بنانا چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان منصوبوں کو ایک مقررہ وقت میں پورا کیا جائے ۔ عہدیداروں کو کسی طرح کے تساہل اور تغافل کے خلاف مستعد کیا جائے اور جو علاقے اور مقامات متاثر ہو رہے ہیں ان میں رہنے بسنے والے عوام کیلئے متبادل اور سہولت بخش انتظامات کئے جائیں ۔ شہر کی صورتحال میں بہتری اس وقت تک مکمل نہیں کہی جاسکتی جب تک نشیبی علاقوں پر مکمل توجہ نہ دی جائے اور وہاں حالات بہتر نہ بنائے جائیں۔ رود موسی کے کناروں پر بسنے والوں کیلئے بطور خاص متبادل انتظامات ترجیحی بنیادوں پر ہونے چاہئیں ۔