پیاس غضب کی تھی اور زہر تھا پانی میں
نہ پیتا تو مرجاتا اور جو پیتا تو بھی مرجاتا
ملک کی دوریاستوں جھارکھنڈ اور اترپردیش میںاسمبلی انتخابات کا عمل چل رہا ہے ۔ پرچہ جات نامزدگیوںکے ادخال کا عمل مکمل ہوا ہے ۔ دونوںریاستوں کے علاوہ کچھ پارلیمانی اور مختلف ریاستوں کے کچھ اسمبلی حلقوں کیلئے بھی ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی ساری توجہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا پر مرکوز ہے ۔ حالانکہ سیاسی سرگرمیاں بہت پہلے ہی تیز ہوگئی تھیں تاہم اب جبکہ پرچہ جات نامزدگیوں کا ادخال مکمل ہوا ہے ایسے میں اب انتخابی مہم میںشدت پیدا ہونے والی ہے ۔ جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میںبی جے پی ‘ کانگریس ‘ شیوسینا کے دونوں گروپس اور این سی پی کے دونوں گروپس کے قائدین کے علاوہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے قائدین اب لگاتار عوام سے رجوع ہونے کا سلسلہ شروع کریں گے ۔بڑے قائدین بھی ان ریاستوں کا دورہ کریں گے اور عوام کو رجھانے کیلئے نت نئے انداز سے تقاریر کریں گے ۔ ان سے ایسے وعدے کئے جائیںگے جو کبھی پورے نہیں ہوئے ہیں اورنہ ہی آگے ہوسکتے ہیں۔ جہاںکہیںعوامی ناراضگی کا احساس ہوگا وہاںمحض انتخابی وعدوں پر اکتفاء نہیں کیا جائیگا بلکہ عوام کو مشتعل کرنے کی کوششیں بھی ہونگی ۔ عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جائیگا ۔ ذات پات کی بنیادوں پر ووٹ دینے کی اپیلیں کی جائیں گی ۔ ایک دوسرے پر ایسے الزامات عائد کئے جائیں گے جن کا تذکرہ سوائے انتخابات کے پھر کبھی نہیں کیا جاتا ۔ عوام سے جھوٹی ہمدردیوں کا اظہار کیا جائے گا ۔ خود کو عوام کا حقیقی ہمدرد ظاہر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ سماج کے ہر طبقہ کو رجھانے کیلئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے اختیار کئے جائیں گے ۔ ان سب کا واحد مقصد یہی ہوگا کہ کسی طرح سے عوام کے ووٹ حاصل کرلئے جائیں۔ اسمبلی یا پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوا جائے ۔ ممکن ہوسکے تو حکومتوں کا حصہ بنا جائے ۔ وزارتیں حاصل کی جائیںاور پھر اپنی ذاتی زندگی میںاقتدار کے مزے لوٹے جائیں۔ عوام کے مسائل کو یکسر فراموش کردیا جائیگا ۔ عوامی حلقوں سے یہ تمام قائدین یکلخت غائب ہوجائیں گے اور عوام سے رابطے منقطع ہوجائیں گے ۔
یہی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی روش ہے ۔ یہی ان کا طریقہ کار ہے جو ہر بار کے انتخابات میں اختیار کیا جاتا ہے ۔ عوام کو سبز باغ دکھانا ‘ انہیںر جھانا اور انہیں جھانسہ دیتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرلینا اور پھر پانچ سال کیلئے فرصت ۔ ان حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو حقیقی معنوں میں اپنی فہم و فراست کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو کسی طرح کی جذباتیت کا شکار ہوئے بغیر ‘ مذہبی جذبات کے استحصال کا موقع دئے بغیر اور کسی طرح کی اشتعال انگیزی کو قبول کئے بغیر سمجھ بوجھ کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔ ایسے امیدواروں اور جماعت کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے جو انتخابی عمل میں عوام کے مسائل کو اجاگر کریں۔ عوامی مسائل کی اہمیت کو سمجھیں۔ عوام کو درپیش مشکلات کا احساس کریں اور ان کے مسائل کی یکسوئی کیلئے منصوبے اور پروگرامس عوام کے سامنے پیش کریں۔ انتخابی تقاریر میں ماحول کو بگاڑنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیںرکھی جائے گی ۔ مختلف مذہبی طبقات کے مابین دوریاں پیدا کرنے کی حکمت عملی پر پھر ایک بار عمل ہوگا ۔ ایسے عناصر کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور ان سے دوری اختیار کی جانی چاہئے ۔ انتخابی عمل میں ملک اور عوام کی حقیقی صورتحال اور ان کے مسائل پر توجہ دینے والوں کو موقع دینے کی ضرورت ہے تاکہ جو مسائل لگاتار بڑھتے جارہے ہیںان کو حل کیا جاسکے ۔ محض مذہبی جذبات کا استحصال کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے والوں کو قبول نہیں کیا جانا چاہئے ۔
آج ملک کی کوئی بھی ریاست ہو مسائل یکساں دکھائی دیتے ہیں۔ روزگار کے مواقع گھٹتے چلے گئے ہیں۔ حکومتوں نے روزگار فراہم کرنے کے وعدے کئے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ روزگار کے مواقع پہلے سے بھی کم ہوگئے ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ پہلے سے 10 گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ عوام کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوگئے ہیں۔ ملک میں معاشی استحکام دکھائی نہیں دے رہا ہے اور عدم طمانیت کی فضاء پائی جاتی ہے ۔ اس صورتحال میں رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کے ذریعہ موقع پرست سیاستدانوں کو سبق سکھانے اور حقیقی عوامی خدمت گذاروں کو موقع دینے کی ضرورت ہے ۔