سارے ہندوستان میں انتخابی ماحول بنتا جا رہا ہے ۔ پہلے تو ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ ایک دیڑھ مہینے میں ان کیلئے اعلامیہ جاری کیا جاسکتا ہے ۔ راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل کا سیمی فائنل کہے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی ہندوستان میں و قفہ وقفہ سے کسی نہ کسی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ اب جو پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور پھر آئندہ سال کے وسط تک پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں ان کیلئے سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی تیاریوں کا پوری طرح سے آغاز کردیا ہے ۔ ہر جماعت انتخابی موڈ میں نظر آنے لگی ہے ۔ کچھ جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں تشہیر کیلئے سوشیل میڈیا کا بڑی حد تک سہارا لیا جا رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا کی انتخابات میں اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کے ذریعہ راست رائے دہندوں تک رسائی ممکن ہونے لگی ہے اور اس کے اخراجات بھی کچھ نہیں ہیں۔ معمولی سے فنڈکے ذریعہ یہ کام ممکن ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی خاص طور پر سوشیل میڈیا پر زیادہ انحصار کرتی ہے ۔ سوشیل میڈیا کا ایک جال سے بی جے پی کی جانب سے بچھا دیا گیا ہے ۔ بی جے پی اپنے سوشیل میڈیا گروپس کے ذریعہ اپنے پیام کو عوام تک پہونچانے کیلئے منظم انداز میں کام کرتی ہے اور پارٹی کے خیال میں اسے اپنے متوقع نتائج حاصل کرنے میںسوشیل میڈیا سے کافی مدد بھی ملتی ہے ۔ ایسا نہںے ہے کہ دوسری جماعتوں کی جانب سے سوشیل میڈیا کا سہارا نہیں لیا جاتا ۔ کانگریس ہو یا دوسری علاقائی جماعتیں ہوں وہ بھی سوشیل میڈیا پر اپنی تشہیر کرتی ہیں تاہم بی جے پی اس کے ذریعہ دوسروں کو رسواء اور بدنام کرنے کا کام بھی بہت تیزی سے کرتی ہے ۔ بی جے پی کی سوشیل میڈیا ٹرولس کی ٹیمیں باضابطہ طور پر کام کرتی ہیں اور یہ ٹیمیںانتخابات میں بھی اہم رول ادا کرتی ہیں۔ دوسری جماعتوں کے پاس سوشیل میڈیا پر کسی طرح کی ٹرولس ٹیمیں موجود نہیں ہیں ۔
ویسے تو جس وقت سے ہندوستان میں انٹرنیٹ کا استعمال عام ہوا ہے اور اسمارٹ فونس ہر خاص و عام کے ہاتھ میں آگئے ہیں سوشیل میڈیا کی اہمیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم انتخابات کے دوران سوشیل میڈیا کی اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار اپنے وہ پیام ووٹر تک اور اپنے کارکنوں تک پہونچانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں جو عام میڈیا کے ذریعہ ممکن نہیں ہوتے یا پھر ان پر گرفت کی جاسکتی ہے ۔ اپنے کارکنوں کو لالچ دینے اور عوام کو دھمکانے جیسے کام بھی سوشیل میڈیا پر کئے جانے لگے ہیں۔ یہ کام کھلے عام اور اصل میڈیا میں فی الحال تو ممکن نہیں ہیں ۔ اسی لئے سیاسی جماعتیں سوشیل میڈیا پر زیادہ کام کرنے لگی ہیں۔ کچھ دوسری تنظیمیں بھی ہیں جو خود تو انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں لیکن سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کا کام بخوبی انجام دیتی ہیں ۔ یہ تنظیمیں بھی سوشیل میڈیا ہی کا سہارا لیتے ہوئے کام کرتی ہیں ۔اسی کے ذریعہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی تشہیر کا ذمہ لیا جاتا ہے ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ اس پر بھی اخراجات ہوتے ہیں لیکن انتخابات کے خرچ میں باضابطہ ان کا حساب کتاب پیش نہیں کیا جاتا ۔ اس پہلو پر الیکشن کمیشن کو نظر رکھنے کی ضر ورت ہے ۔ سوشیل میڈیا کی جہاں اہمیت میں اضافہ ہوا ہے وہیں اس کے بیجا اور غلط استعمال کی شکایات بھی عام ہوگئی ہیں۔ اس کے بہتر اور مثبت انداز میں استعمال کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔
سوشیل میڈیا کے ذریعہ نفرت پھیلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی اب کوئی ڈھکی چھپی یا نئی بات نہیںرہ گئی ہیں۔ اس پر بھی الیکشن کمیشن کو نظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم کے عمل کو شفاف بنانا چاہئے ۔ سوشیل میڈیا کے غلط استعمال پر قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے انتخابی مہم پر کسی کو بھی منفی انداز میں اثر انداز ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ جس طرح مختلف پہلووں پر نظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران کارروائیاں کی جاتی ہیںاسی طرح سوشیل میڈیا اور اس کے استعمال پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کو بھی اس کا بیجا استعمال کرتے ہوئے غلط فائدہ حاصل کرنے کا موقع ملنے نہ پائے۔