انتخابات میں فوج کا سہارا

   

مقدر میں اگر ہو غرق ہونا،غرق ہوجاؤ
اگر ہو ڈوبنا توسب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں
انتخابات میں فوج کا سہارا
برسر اقتدار بھارتیہ جنتاپارٹی ایسا لگتا ہے کہ انتخابات میں عوام کے موڈ کی وجہ سے الجھن اور پریشانیوں کا شکار ہے ۔ حال ہی میں خود بی جے پی کے ایک داخلی سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس بار بی جے پی کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑیگا اور این ڈی اے ایک بڑا گروپ بن کر ابھرنے کا امکان نہیں ہے ۔ بی جے پی حالانکہ سب سے بڑی جماعت ہوگی لیکن اس کو 130 نشستوں کے آس پاس نقصان ہوسکتا ہے ۔ یہ بی جے پی کیلئے انتہائی پریشان کن صورتحال ہے ۔ بی جے پی اب اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔ ایک کوشش فوج کی کامیابیوں اور کارناموںکو اپنے سر باندھنے کی بھی ہو رہی ہے ۔ یہ ملک کی فوج کے وقار کو مجروح کرنے اور اسے گھٹانے کی کوشش ہے ۔ ہندوستان کی فوج ایک عظیم فوج ہے اور ہر ہندوستانی اس فوج پر فخر کرتا ہے ۔ اس پر ہر ہندوستانی کو ناز ہے ۔ اب اس فوج کے کارناموں کا سیاسی مقاصد کیلئے استحصال کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کے پاس عوامی مسائل پر ووٹ مانگنے کا حوصلہ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ اس نے گذشتہ پانچ سال میں عوام کو مایوسی کا شکار ہی کیا ہے ۔ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں سے ملک کی معیشت کو بھاری نقصان ہوا ہے ۔ کسانوں کی مدد کرنے کی بجائے مٹھی بھر حاشیہ بردار کارپوریٹس کے خزانے بھرنے پر توجہ دی گئی ہے ۔ عوام کے ہزاروں کروڑ روپئے لوٹنے والے دھوکہ باز تاجروں کو ملک سے فرار ہونے کے مواقع فراہم کئے گئے تھے ۔ کسانوں نے جب مدد مانگی تو ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ ملک میں نوجوانوں کو سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس وعدہ پر بھی محض کھلواڑ ہی کیا گیا ہے ۔ جب نوجوانوں نے روزگار پر سوال کیا تو انہیں پکوڑے تلنے یا پان کی دوکان لگانے کا مشورہ دے کر خود کو بری الذمہ کرلیا گیا ۔ جب ہر شہری کے اکاونٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانے کے وعدے پر سوال کیا گیا تو اسے انتخابی جملہ قرار دیدیا گیا ۔ ملک کی معیشت کو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ذریعہ تباہ کردیا گیا ۔ اب ان سے بچنے فوج کے کارناموں کا استحصال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
بی جے پی کے قائدین اور خود وزیر اعظم تقریبا ہر انتخابی جلسہ اور ریلی میں بالا کوٹ حملوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ ملک کا چوکیدار دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ چوکیدار عالیشان بنگلے میں رہتا ہے‘ مہینگے ترین لباس ذیب تن کرتا ہے ‘ لاکھوں روپئے یومیہ غذا پر خرچ کئے جاتے ہیں اور درجنوں کمانڈوز کی سکیوریٹی میں سانس لیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے جوان سرحدوں پر انتہائی نامساعد حالات میں ملک اور قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہیں مناسب غذا اور موسم کی سختیوں سے بچنے کی مناسب سہولیات تک دستیاب نہیں رہتیں۔ ہمارے سابقہ فوجی ایک عہدہ ایک پنشن مسئلہ پر اب بھی نبرد آزما ہیں۔ ہماری فوج اور ہمارے جوان اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ وقت آنے پر اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اس فوج کے کارناموں کو اپنے نام کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں انتہائی افسوسناک ہیں اور اس ہندوستان کی فوج کا وقار مجروح ہو رہا ہے ۔ انتخابات میں سیاسی کارنامے پیش کرنے چاہئیں۔ عوامی فلاحی اسکیمات کا تذکرہ کیا جانا چاہئے ۔ اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے ۔ مستقبل کے منصوبوں کا خاکہ سامنے رکھنا چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے پاس ایسا کچھ بھی کرنے کو نہیں رہ گیا ہے اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے ۔
عوام کو رجھانے اور ان کی تائید حاصل کرنے کیلئے سیاسی حکمت عملی بنائی جائے ۔ ان سے وعدے کئے جائیں اور مخالفین کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جائے تو درست ہوتا ہے لیکن سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ہماری فوج کا استحصال نہیں ہونا چاہئے ۔ اس کے کارناموں کو اپنے سر باندھتے ہوئے فوج کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے ۔ فوج کسی ایک شخصیت کی نہیں ہوتی ۔ یہ ہندوستان کی فوج ہے اور ہر ہندوستانی کو اس پر فخر ہے ۔ صرف ایک مخصوص سیاسی جماعت کو اس کے کارناموں کا سہرا اپنے سر باندھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ بی جے پی کو ایسی کوششوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک اور ملک کی مسلح افواج کا وقار مجروح ہوتا ہو ۔ ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی ۔