کلیوں کا ہے نہ دوش نہ گل چیں کی ہے خطا
کچھ دیر کو لبھایا ہے فصل بہار نے
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ہندوستان میں انتخابات کے سات کے منجملہ پانچ مراحل کی تکمیل ہوچکی ہے ۔ آج پانچویں مرحلہ کیلئے ووٹ ڈالے گئے ۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق جملہ 56.7 فیصد رائے دہی ہوئی ہے ۔ انتخابی مہم کا دو دن قبل اختتام عمل میں آیا تھا اور تمام سیاسی جماعتوں اورا میدواروں کی جانب سے رائے دہندوں کو رجھانے اور ان کی تائید و ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کی گئی تھی ۔ اب جبکہ پانچ مراحل میں ووٹ ڈالے جاچکے ہیں اب محض دو مراحل کی رائے دہی باقی رہ گئی ہے ۔ ہندوستان میں انتخابی عمل کو جمہوریت کا تہوار قرار دیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت دنیا بھر میںمنفرد قرار دی جاتی ہے اور اس کی عزت و احترام سب سے الگ ہی رہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں اور خاص طور پر جاریہ انتخابی عمل کے دوران یہ دیکھا گیا کہ انتخابات کے نام پر جمہوریت کو داغدار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ انتہائی منفی انداز میں انتخابی مہم چلائی گئی تھی اور قانون کی خلاف ورز ی سے کسی نے گریز نہیں کیا ۔ خاص طور پر برسر اقتدار جماعت اور اس کے قائدین نے انتخابی قوانین اور ضوابط کو داغدار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور اپنے عمل سے بارہا یہ واضح کردیا کہ ان کے لئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور وہ قوانین اور اصولوں کو داغدار کرنے سے گریز نہیں کرینگے ۔ انتخابی عمل کو مذہبی استحصال کا شکار بنانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔ عوام کو درپیش مسائل اور ان کی تشویش پر کسی بھی طرح کا جواب دینے کی بجائے مندر ‘ مسلمان اور منگل سوتر پر توجہ دی گئی ۔ انتخابات کے ہر مرحلہ میں منفی انداز سے مہم چلاتے ہوئے رائے دہندوں کے مذہبی استحصال کا راستہ اختیار کیا گیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ عوامی مسائل کہیں پس منظر میں چلے جائیں ۔ عوام کے ذہنوں میںصرف مندر رہ جائے ۔ صرف مسلمانوں سے نفرت پروان چڑھے اور صرف منگل سوتر کی حفاظت جیسے بے بنیاد فقرے ان کے ذہنوںمیں ڈالے جائیں۔ یہ ہندوستان میں انتہائی منفی مہم والے انتخابات قرار دئے جاسکتے ہیں جس کی مثالیں موجود ہیں۔
سیاسی قائدین اور جماعتوں اور برسر اقتدار طبقہ کی اسی روش نے ہندوستان میں عوام کو کسی حد تک انتخابی عمل سے بیزار کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کی بہترین جمہوریت رکھنے کے باوجود بھی عوام کی شراکت کے تناسب میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کچھ مواقع پر تو رائے دہی کے تناسب میںاور فیصد میںاضافہ ہونے کی بجائے کمی ہی درج کی جا رہی ہے ۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے ۔ عوام انتخابی عمل سے دور ہو رہے ہیں اور انتخابات کو سیاسی جماعتوںتک محدود رکھتے ہوئے خود اس سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ حالانکہ کئی گوشوں سے عوام میںشعور بیداری کے نام پر یہ اپیلیں کی جاتی ہیں کہ وہ رائے دہی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاہم کسی بھی گوشے سے یہ کوشش نہیں کی جاتی کہ انتخابات میں مقابلہ کرنے والے امیدواروں میں انتخابی ضوابط اور اصولوں کی پابندی کیلئے مہم چلائی جائے ۔ برسر اقتدار جماعت ہو یا پھر کہیںاپوزیشن جماعتیں ہوں سبھی کو انتخابی قوانین کا پابند بنانے کیلئے ان سے کوئی جواب طلب نہیں کیا جاتا ۔ انتخابی مہم کو مسائل کی حد تک محدود رکھنے کیلئے سیاسی قائدین پر کوئی زور نہیں دیا جاتا ۔ ان کو عوام کے درمیان مباحث کیلئے مدعو نہیں کیا جاتا اور کہیں کیا بھی جاتا ہے تو سیاسی قائدین اس کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں رہتے ۔ ہر کام محض عوام کے سامنے دکھاوا کرنے یا پھر انہیں گمراہ کرنے کیلئے ہی کیا جاتا ہے ۔ حقیقی معنوں میں انتخابات اور جمہوریت کے عمل کو مستحکم کرنے کیلئے کوئی گوشہ سنجیدہ نظر نہیںآتا ۔
ملک کے عوام جمہوریت کے سب سے بڑے حصے دار ہیں۔ انہیں تمام صورتحال کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ صرف جذباتی نعروں ‘ اشتعال انگیز بیانات ‘ نفرت پر مبنی تقاریر یا پھر مذہبی جذبات کا استحصال کرنے والوں سے چوکنا رہنے اور انہیں ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک اور ملک کی جمہوریت کو استحکام کس طرح سے بخشا جاسکتا ہے ۔ کس طرح سے سیاسی قائدین کو عوامی مسائل پر بات کرنے اور انہیں حل کرنے کی سمت راغب کیا جاسکتا ہے ۔ کئی امور میں جس طرح عوام کی اہمیت ہے اسی طرح اس معاملے میں بھی عوام کو ہی اپنے ووٹ اور اپنے فیصلے کے ذریعہ سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔