انتخابی جنگ ‘ حدود کی پاسداری ضروری

   

میں قفس ہی کو سمجھ لوں گا نشیمن اپنا
تیری مرضی نہیں صیاد! تو آزاد نہ کر
بہار میں انتخابی جنگ کا آغاز ہونے والا ہے ۔ پہلے مرحلے کیلئے تقریبا تمام جماعتوں کے امیدواروں نے اپنے پرچہ جات نامزدگی داخل کردئے ہیں اور دوسرے مرحلے کیلئے امیدواروں کے انتخاب اور ان کے اعلان کا عمل جاری ہے ۔ تمام جماعتیں مرحلہ وار انداز میں آگے بڑھتے ہوئے انتخابی مہم شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ کچھ امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ تاہم جماعت واری اساس پر بڑے پیمانے پر انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز آئندہ چند دنوں میں ہونے والا ہے ۔ کئی جماعتیں اور بے شمار قائدین انتخابی مہم میں مصروف ہونگی ۔ نت نئے وعدے کئے جائیں گے ۔ نت نئی اسکیموں کے جھانسے دئے جائیں گے اور عوام کو سبز باغ دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ ہر جماعت اور ہر جماعت کے قائدین عوام پر اثر انداز ہونے کیلئے کوششیں کریں گے ۔ عوام کو رجھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ بہار کے انتخابات کی ویسے بھی ہمیشہ ہی اہمیت ہوا کرتی ہے اور یہاں پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا ہے ۔ تاہم اس بار کی صورتحال اور بھی زیادہ حساس دکھائی دے رہی ہے ۔ صورتحال کے مطابق ہر جماعت تن من دھن کی بازی لگاکر انتخابات میں مقابلہ کرے گی ۔ چونکہ بہار کے انتخابات کا قومی سیاست پر بھی اثر ہونے کے امکانات واضح ہیں تو اس بار ان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ ایسے میں یہ اندیشے ضرور پیدا ہونے لگے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی قائدین اور جماعتوں کی جانب سے تمام حدود کو پھلانگا جاسکتا ہے ۔ ایسی باتیں کہی جاسکتی ہیں جن کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ ایسے حربے اختیار کئے جاسکتے ہیں جن کی کوئی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس معاملے میں ہر سطح کے قائدین ایک دوسرے سے بازی مارنے کی کوشش کریں گے اور اپنے حدود پھلانگتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے جائیں گے ۔ انتخابی مہم کو ایک سطح سے گرادیا جائیگا اور کسی بھی سطح تک جا کر ووٹ حاصل کرنے پر کی کوشش کی جائے گی ۔ اس کی ماضی میں بھی کئی مثالیں نہ صرف بہار بلکہ سارے ملک کے عوام کے سامنے موجود ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ انتخابی عمل اور انتخابی مہم کے دوران ملک کے اعلی ترین اور ذمہ دار دستوری عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے بھی قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور ایسی باتیں اور جملے کہے جاسکتے ہیں جن کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ قبرستان اور شمشان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو کہیں نقاب اور حجاب کی سیاست کی جاتی ہے ۔ کہیں داڑھی اور ٹوپی کی بات کی جاتی ہے تو کہیں لباس سے کسی کو پہچاننے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ ترقیاتی اور عوام کو درپیش مسائل پر تبصرہ کرنے کی بجائے عوام کے ذہن و دل میں مذہبی عصبیت اور خوف پیدا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی ۔ کہیں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ خواتین کے گلے سے منگل سوتر چھین لئے جائیں گے تو کہیں یہ خوف پیدا کیا جاتا ہے کہ گھروں سے بھینس کھول لی جائیں گی ۔ یہ مسائل کسی بھی حال میں انتخابی مہم یا انتخابی سیاست کا حصہ نہیں ہوسکتے لیکن چونکہ اصل مقصد عوام کو حکومتوں کی ناکامیوں سے دور رکھنا ہوتا ہے اور بنیادی مسائل سے ان کی توجہ ہٹانی ہوتی ہے اس کیلئے ایسی سیاست کی جاتی ہے اور اس میں کچھ حد تک کامیابی بھی ملتی ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس سے جمہوری عمل داغدار ہوتا ہے ۔ ہندوستان حالانکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہریت ہے لیکن اس جمہوریت کو کھوکھلی کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ انتخابی مہم کا ایک معیار برقرا ر رکھنا اور حدود سے تجاوز نہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ انتخابی عمل کی اہمیت اور افادیت متاثر ہونے نہ پائے اور نہ عوام کا اعتماد متزلزل ہوسکے ۔
بہار میں انتخابی عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لئے الیکشن کمیشن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کو یقینی بنائے اور ہر کسی کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کیا جائے ۔ کسی کے ساتھ امتیاز برتنے یا کسی کا سیاسی دباؤ قبول کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ انتخابی عمل کی اہمیت اور افادیت کو برقرار رکھنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہی عائد ہوتی ہے اور اسے یہ ذمہ داری بہرصورت نبھانی چاہئے ۔ اس کے علاوہ بہار کے عوام کو بھی اس معاملے میں چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور مذہبی استحصال کا شکار ہونے کی بجائے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔