انتخابی رول میں ترمیم

   

قدم زمیں پہ جو اپنے کبھی جما نہ سکے
وہ آج چاند ستارے تلاش کرتے ہیں
ایک ایسے وقت جبکہ ملک میں مختلف گوشوں کی جانب سے انتخابی عمل پر شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں یا بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور خاص طور پر کانگریس اور دوسری کچھ جماعتوں کی جانب سے الزامات کا سلسلہ جاری ہے مرکزی حکومت نے انتخابات سے متعلق ایک قانون یا رول میں تبدیلی کردی ہے جس کے تحت پولنگ بوتھس کا سی سی ٹی وی فوٹیج ‘ ویب کاسٹنگ کا فوٹیج اور امیدواروں کی ویڈیو گرافی وغیرہ کو عوام کے مشاہدہ تک پہونچنے سے روک دیا جائیگا ۔ حالانکہ یہ سب کچھ امیدواروں کو دستیاب کروایا جاسکتا ہے تاہم عوام کی اس تک رسائی ممکن نہیںہوسکے گی ۔ یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا جبکہ پنجاب و ہریانہ ہائیکورٹ کی جانب سے یہ ہدایت دی گئی تھی کہ یہ مواد ایک درخواست گذار کو فراہم کردیا جائے ۔ حکومت کی جانب سے اچانک اس طرح کے قانون میں ترمیم یا تبدیلی کئی طرح کے سوال پیدا کرنے کیلئے کافی ہے ۔ جس طرح سے اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ انتخابی عمل میں حکومت کی جانب سے مسلسل مداخلت کی جا رہی ہے اور حکومت کی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہریانہ اور جموںو کشمیر کے انتخابات ایک وقت میں اور پھر جھارکھنڈ و مہاراشٹرا کے انتخابات الگ وقت میں منعقد کروانے کی مثال بھی پیش کی جا رہی ہے ۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا کے انتخابی نتائج کے تعلق سے کانگریس پارٹی نے جس طرح کے شبہات کا اظہار کیا ہے اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے لیکن یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ وضاحت طمانیت بخش نہیں ہے ۔ چونکہ کئی گوشوں سے طرح طرح کے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے ہائیکورٹ کی ایک رولنگ کے بعد اچانک ہی کسی رول میں ترمیم یا تبدیلی کرنے سے بھی مزید سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے انتخابی عمل کی اہمیت اور اس کی سالمیت کو ختم کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ حکومت نے خاموشی سے فیصلہ تو کردیا ہے لیکن اس پر کسی طرح کی وضاحت نہیں کی گئی ہے ۔
پنجاب و ہریانہ ہائیکورٹ نے جو رولنگ دی تھی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت دوسری سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بھی کوئی فیصلہ کرسکتی تھی ۔ تمام جماعتوں کی رائے حاصل کی جاسکتی تھی ۔ ان کی تجاویز پر غور کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جاسکتا تھا تاہم کسی کو اعتماد میں لئے بغیر اچانک اور خاموشی سے اس طرح کا فیصلہ کردیا جانا سیاسی جماعتوں میں مزید عدم اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ دوسری جماعتوں کی رائے بھی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہی ہے ۔ سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کی شراکت دار ہوتی ہیں۔ ان کا بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوتا ہے ۔ ان کی شراکت داری پر کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے میں اگر مرکزی حکومت کی جانب سے تمام جماعتوں سے رابطہ کیا جاتا ۔ اپنے فیصلے کی تفصیل اور اس کی وجوہات سے واقف کروایا جاتا اور پھر ان جماعتوں کی رائے حاصل کرتے ہوئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تو اس معاملے میں زیادہ بہتر ہوتا ۔ انتخابی عمل کی اہمیت اور اس کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کو تمام سے مشورہ کرنے کی ضرورت تھی ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ جس طرح پارلیمنٹ کی کارروائی چلانے میں حکومت نے من مانی انداز اختیار کیا ہوا ہے اسی طرح سے دوسرے امور میں بھی حکومت کسی کی رائے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے بلکہ اپوزیشن کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ یہ ہندوستان کی پارلیمانی جمہوریت کی روایات کے مغائر صورتحال ہے ۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ حکومت کو اس طرح کے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے تاہم حکومت پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے اقدامات کرے ۔ تمام جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنا بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن موجودہ حکومت ایسی کسی ذمہد اری کو پورا کرنے کی بجائے آمرانہ طرز اختیار کرتے ہوئے فیصلے کر رہی ہے اور ان فیصلوں کو بزور طاقت تھوپا جا رہا ہے ۔ اس طرح کے فیصلوں سے جو شبہات پیدا ہوتے ہیں انہیں دور کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ حکومت کو اس سارے معاملے میںتفصیلی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔