انتخابی فائدہ کیلئے اخلاقی گراوٹ

   

ہر مصلحت شناس کو مخلص نہ جانئے
پردے میں اس خلوص کے بیگانگی نہ ہو
سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل دو ریاستوں میں انتخابات کا بگل بجایا جاسکتا ہے ۔ شمالی ہند کی ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جبکہ مراٹھی ریاست مہاراشٹرا میں مجالس مقامی اور بلدیات کے انتخابات کا بگل بھی بجنے والا ہے ۔ ایسے میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی فائدہ کیلئے سرگرم ہوگئی ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کے ذریعہ عوام پر اثر انداز ہونے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوششوں میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ ایسا کرنا ان تمام جماعتوں کا سیاسی حق بھی ہے ۔ ملک کے جمہوری عمل کا حصہ بھی ہے ۔ تاہم انتخابی فائدہ کیلئے اخلاقی گراوٹ کے مظاہرے کئے جا رہے ہیں اور خود کو ذمہ دار قرار دینے والے سیاسی قائدین ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جو گلی اور نکڑ کے کارکن بھی استعمال نہیں کرتے یا انہیں نہیں کرنا چاہئے ۔ مہاراشٹرا میں مراٹھی اور ہندی زبان کا تنازعہ شروع کردیا گیا ہے ۔ مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے اسکولس میں ہندی کے لزوم کے خلاف جو مہم شروع ہوئی تھی اب وہ ایک بہت بڑا سیاسی مسئلہ بن گیا ہے اور یہ ایک ہی مسئلہ ملک کی دونوں ریاستوں میں جہاں انتخابات ہونے والے ہیں اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ مراٹھی اور ہندی کے تنازعہ میں اب مہاراشٹرا میں کچھ دوکانداروں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ حالانکہ سیاسی اثرات کو دیکھتے ہوئے حکومت مہاراشٹرا کی جانب سے سہ لسانی فارمولے پر عمل آوری کو روک دیا گیا ہے اور اس کیلئے ایک ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے تاہم یہ مسئلہ لگاتار سرخیوں میں رہنے لگا ہے ۔ مہاراشٹرا کی دو سیاسی جماعتوں شیوسینا ادھو ٹھاکرے اور ایم این ایس کی جانب سے حکومت کے فیصلہ واپس لینے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہیں ۔ دونوں جماعتوں میں اتحاد کے اشارے بھی ملنے شروع ہوگئے ہیں اور دونوں جماعتوں کے قائدین جو رشتہ میں بھائی بھی ہیں دو دہوں کے بعد ایک عوامی اسٹیج پر جمع ہوئے اور انہوں نے مراٹھی وقار کی بات کہی ہے ۔ جہاں تک ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے کا سوال ہے وہ اس معاملے میں زیادہ جارحانہ تیور دکھا رہے ہیں اور اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے کارکنوں کی جانب سے حملوں کی بھی بالواسطہ تائید کر رہے ہیں۔
جہاں تک مقامی سطح کے کارکنوں کی بات ہے تو ان کی سرگرمیاں اپنی جگہ ہیں تاہم بی جے پی اور ایم این ایس کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جو ہرگز بھی انہیں زیب نہیں دیتی ۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے اس طرح کی بیان بازی کی شروعات کی اور انہوں نے راج ٹھاکرے کو انتباہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اگر یو پی یا بہار آتے ہیں تو انہیں پٹک پٹک کر مارا جائے گا ۔ اب راج ٹھاکرے نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نشی کانت دوبے ممبئی آتے ہیں تو انہیں ممبئی کے سمندر میں ڈبو ڈبو کر پیٹا جائے گا ۔یہ زبان در اصل انتہائی غیرشائستہ اور عوامی حلقوں کیلئے نازیبا کہی جاسکتی ہے ۔ اب یہ مسئلہ اتنا شدت اختیار کرگیا ہے کہ بہار کے اسمبلی انتخابات میں اور مہاراشٹرا کے مجالس مقامی انتخابات میں زیادہ تر یہی موضوع بحث رہے گا ۔ ہندی بولنے والوں کو مہاراشٹرا میں نشانہ بنانے کے واقعات کو بہار اسمبلی انتخابات کی مہم میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائیگا اور مہاراشٹرا میں ایم این ایس اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے کی جانب سے عوامی تائید کیلئے اٹھانے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس طرح عوامی حلقوں میں بد امنی اور بے چینی پیدا کرتے ہوئے انتہائی ناشائستہ اور نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے دونوں ہی قائدین انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ بی جے پی چونکہ مہاراشٹرا اور بہار دونوں ریاستوں میں انتخابی مقابلہ کرے گی اس لئے اسے دونوں ہی ریاستوں کیلئے ایک مسئلہ دستیاب ہورہا ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنے رکن پارلیمنٹ پر لگام کسنے یا ان کی سرزنش کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ یہ بی جے پی کا دوہرا معیار ہے ۔
مہاراشٹرا میں چونکہ شمالی ہند کے ہندی بولنے والے باشندوں کی بھی خاطر خواہ تعداد موجود ہے اس لئے بی جے پی ان کے ووٹوں کی خاطر مہاراشٹرا کے مراٹھی عوام کی کھل کر تائید کرنے کے موقف میں نہیں ہے اور ایم این ایس مراٹھا عوام کی تائید کو مستحکم کرنے کیلئے یہ مسئلہ برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی ۔ یہ صورتحال دونوں ہی جماعتوںاور قائدین کی اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ان جماعتوں کیلئے صرف اور صرف سیاسی اور انتخابی فائدہ ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ عوامی حلقوں میں امن و امان اور خیرسگالی کی برقراری کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے ۔ وہ عوامی امن متاثر کرتے ہوئے بھی اپنے سیاسی فائدہ کو یقینی بنانے کیلئے گریز نہیں کرینگے ۔ یہ رجحان قابل مذمت ہے ۔
عآپ کی انڈیا اتحاد سے دوری
عام آدمی پارٹی نے بالآخر انڈیا اتحاد سے دوری اختیار کرلی اور کہا کہ اب وہ اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے ۔ ویسے بھی عام آدمی پارٹی ابتداء ہی سے پوری سنجیدگی کے ساتھ انڈیا اتحاد کا حصہ نہیں رہی تھی اور وہ محض بی جے پی کی مخالفت کا اظہار کرنے اس اتحاد میں شامل ہوئی تھی اور اس اتحاد کو ہی اس نے کئی مواقع پر نقصان پہونچایا ہے ۔ اس کی مثالیں گجرات اسمبلی انتخابات ہیں اور پھر ہریانہ میں محض عام آدمی پارٹی کی وجہ سے بی جے پی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ پنجاب و گجرات میں دو نشستوں پر ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد عام آدمی پارٹی ایک بار پھر بی جے پی کی مدد جیسے فیصلے کرنے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ پارٹی نے گجرات میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ فیصلہ بھی بی جے پی کیلئے سازگار ہی کہا جاسکتا ہے ۔ گجرات میں جس طرح عام آدمی پارٹی کو ایک حلقہ میں کامیابی دلائی گئی وہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ دکھائی دیتا ہے ۔ انڈیا اتحاد کو اپنی صفوں میں اتحاد اور استحکام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر یکے بعد دیگر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کیلئے اس اتحاد کو مستحکم کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔