بقیہ شہر کا لہجہ ہے پُرجلال بہت
تبھی تو شہر میں پھیلا ہے اشتعال بہت
انتخابات در اصل سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کے پروگرامس پیش کرتے ہوئے اور ان کیلئے اب تک کئے گئے کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کرنے کا نام ہے ۔ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میںسیاسی جماعتوں کو اپنا رپورٹ کارڈ عوام میںپیش کرتے ہوئے ان سے سند حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ان کو ورغلاتے ہوئے عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حقیقی اور بنیادی نوعیت کے مسائل کو کہیںپس منظر میں ڈھکیل دیا جاتا ہے اورا ن پر کم سے کم اظہار خیال ہوتا ہے ۔ صرف مذہبی اشتعال انگیزی کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ ہمارا دستور اور قانون مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے قانون ساز اداروں میںپہونچنے کیلئے ہی لوگ قانون کی خلاف ورزی کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھتے اور نہ ہی کوئی عار محسوس کرتے ہیں۔ فی الحال جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کا عمل چل رہا ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران دو پہلو دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوںاور ان کے امیدواروں کی جانب سے مذہبی اشتعال کے ذریعہ عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اب تک لو جہاد کا نعرہ دیا جاتا تھا اور اب ووٹ جہاد کی بات کی جا رہی ہے ۔ اس کی نہ کوئی منطق ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی غیر قانونی حرکتیں کرنے والوں کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی نہیںکی جاتی ۔ اس پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کی ایک طرح سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ اس طرح کی باتوں اور نعرہ بازیوں کے ذریعہ انتخابی عمل کی افادیت اور اہمیت ہی کو متاثر کیا جا رہا ہے اور عوام کو خود ان کے اپنے مسائل سے بہ بہرہ کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کیا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کوا س صورتحال کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور اس کا سدباب کرنے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
جہاں بی جے پی اورا س کی حلیف جماعتیںاور ان کے امیدوار مذہبی اشتعال کا سہارا لیتے ہوئے عوام میں پہونچ رہے ہیں تو دوسری جانب سے کانگریس اور اس کی ساتھی جماعتیں اور ان کے قائدین کی جانب سے عوامی مسائل کو موضوع بحث بنانے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ خود راہول گاندھی عوام کو درپیش مسائل کو اعداد و شمار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ نوجوانوںکے روزگار کی بات کی جا رہی ہے ۔ نوکریوں کی تعداد میں اضافہ کی بجائے ان میں کٹوتی پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے ۔ مہنگائی کی بات کی جا رہی ہے تو عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹرا کی موجودہ اتحادی حکومت کی ناکامیوںکو اجاگر کرنے اور ان سے عوام کو واقف کروانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انتخابی مہم کو عوام کی نبض کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ ایک واضح فرق ہے جو مہاراشٹرا میں دکھائی دے رہا ہے ۔ پہلے مرحلہ میںجھارکھنڈ میں بھی یہی صورتحال دکھائی دی تھی ۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی طرح کی حرکت نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ہی مذہبی جملے یا نعرے لگانے والوں کو قابو میںکرنے کے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ایسی لاپرواہی اور تغافل کے نتیجہ میںانتخابی عمل کو متاثر کرنے والوں کی بالواسطہ حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور وہ لگاتار ایسی حرکتیں کرنے لگے ہیں۔ اس طرح کے عناصر در اصل ہمارے جمہوری عمل کو متاثر کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔
مہاراشٹرا کے عوام کے سامنے انتخابی مہم کے دونوں پہلو موجود ہیں۔ ایک طرف مذہبی اشتعال کا سہارا ہے تو دوسری طرف عوامی مسائل پر جدوجہد ہے ۔ ایک طرف محض جذباتی نعرے ہیں تو دوسری جانب عملا کئے جانے والے کاموں کا تذکرہ ہے ۔ اس صورتحال میںعوام کو کافی غور و فکر کے بعد اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔ جذباتیت کا شکار ہو کر فیصلہ کرنے کی بجائے عملی طور پر اپنے مسائل کی یکسوئی کو یقینی بنانے والوں کو موقع دیا جانا چاہئے ۔ مہاراشٹرا کے ووٹرس کو اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ استحصال کرنے والوں کو مسترد کیا جانا چاہئے ۔