انتقامی کارروائیاں جاری

   

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
مرکزی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے قائدین اور جماعتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ کسی نہ کسی بہانے سے اپوزیشن کے قائدین کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ جیسے جیسے کچھ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور آئندہ پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے مرکزی حکومت کی جانب سے سرگرمیوں کو تیز کردیا گیا ہے اور انتقامی جذبہ کے تحت کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ تازہ ترین نشانہ دہلی کے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کو بنایا گیا ہے ۔ جو الزامات سیسوڈیا کے خلاف عائد کئے گئے ہیں وہ اب تازہ نہیںہیں بلکہ گذشتہ چند ماہ سے یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔ دہلی کی اکسائز پالیسی کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا تھا ۔ دہلی حکومت نے تحقیقات کے آغاز کے بعد سے اس پالیسی کو معرض التواء میں بھی رکھ دیا ہے ۔ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کی جانب سے ڈپٹی چیف منسٹر دہلی کے خلاف تحقیقات کی ہدایت بھی دی تھی ۔ ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی حکومت نے اس پالیسی پر عمل کو روک بھی دیا تھا ۔ تاہم جس وقت پر یہ کارروائی کی گئی ہے وہ قابل غور ہے ۔ منیش سیسوڈیا دہلی میںتعلیم اور صحت کا قلمدان بھی سنبھالتے ہیں۔ دہلی میں تعلیمی اور صحت کے شعبہ کی بہتری اوراصلاحات نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے ۔ دہلی کی تعلیمی صورتحال نے سارے ملک کے عوام کو بھی اس جانب متوجہ کرلیا ہے ۔ ملک بھر کے عوام چاہتے ہیں کہ جس طرح دہلی کے سرکاری اسکولس کی صورتحال کو بہتر بنایا گیا ہے اسی طرح ان کی ریاستوں میں بھی تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں۔ دہلی ماڈل کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے ۔ جمعہ کو امریکہ کے سرکردہ اور صف اول کے روزنامہ کے صفحہ اول میں دہلی کے اسکولس کی تصویر شائع ہوئی ۔ دہلی میں تعلیمی انقلاب کے تعلق سے ایک تفصیلی رپورٹ بھی شائع کی گئی ہے جو عام آدمی پارٹی حکومت کیلئے ایک تمغہ سے کم نہیں ہے ۔ اسی دن تعلیم کا قلمدان رکھنے والے ڈپٹی چیف منسٹر کے گھر پر سی بی آئی کے دھاوے سے یہ شکوک تقویت پاتے ہیں کہ یہ انتقامی کارروائی ہے ۔
جس دن دہلی کے ڈپٹی چیف منسٹر کی ستائش کی جانی چاہئے تھی ۔ انہیں مبارکباد دی جانی چاہئے تھی اور ان کے کام کو مثال کے طور پر اختیار کرنے کا عہد کیا جانا تھا اسی دن ان کے خلاف سی بی آئی کے دھاوے کرواتے ہوئے انتقامی جذبہ کا اظہار کیا گیا ہے جو ملک کے وفاقی حکمرانی ڈھانچہ کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ ویسے تو سارے ملک میں اس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ جہاں کہیں علاقائی اور مقامی جماعتیں مرکزی حکومت کے خلاف موقف اختیار کر رہی ہیں یا حکومت کے احکام پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے انہیں نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ یا تو ریاستی حکومتوںکو ہی زوال کا شکارکیا جا رہا ہے یا پھر ان کے قائدین اور ذمہ داروں کے خلاف مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ جو ریاستی حکومت عددی طاقت کے اعتبار سے مستحکم ہیں اور انہیںزوال کا شکار کرنا ممکن نہیں ہے انہیں ان کے وزراء اور قائدین کو فردا فردا نشانہ بناتے ہوئے کمزور کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ ہمہ جماعتی نظام کو اس روش سے خطرہ پیدا ہونے لگا ہے ۔ ملک کو ایک جماعتی نظام کی سمت لانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور مختلف گوشوں میں یہ اندیشے سر ابھارنے لگے ہیں کہ کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دینے والی بی جے پی کہیں اپوزیشن مکت بھارت کے منصوبے پر تو عمل شروع نہیں کرچکی ہے ؟ ۔ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو یہ ملک کے طرز حکمرانی اور طرز جمہوریت دونوں ہی کیلئے سنگین خطرہ کے مترادف ہے ۔
عام آدمی پارٹی کی جہاں تک بات ہے تو یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس سے قبل دہلی کے ایک وزیر ستیندر جین کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ۔ انہیں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا ۔ ان کے خلاف بھی دھاوے کئے گئے لیکن وہاں بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا ۔ عدالتوں کی جانب سے شکایت کنندگان کے خلاف جرمانہ تک عائد کیا گیا ہے ۔ اس سب کے باوجود مرکزی حکومت نے اپنے رویہ میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں لائی ہے اور انتقامی جذبہ کے تحت کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔ در اصل حکومت کسی بھی مخالفانہ طاقت یا اختلاف رائے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ آمرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اس سے ملک کی جمہوریت اور وفاقی طرز حکمرانی کیلئے سنگین خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ حکومت کو اپنی روش تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
بی جے پی اور ذات پات کی سیاست
بی جے پی کی جانب سے اکثر و بیشتر اپوزیشن جماعتوں کو ذات پات کی سیاست کا الزام عائد کرتے ہوئے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کسی پر خاندان کو فروغ دینے کا تو کسی پر ذات پات کی سیاست کا الزام عائد کرنے سے بی جے پی گریز نہیں کرتی تاہم خود کرناٹک میں بی جے پی ذات پات کی سیاست پر مجبور ہوتی نظر آر ہی ہے ۔ بی جے پی ریاست میںچیف منسٹر بسوا راج بومائی کی تبدیلی پر غور کر رہی ہے ۔ بی جے پی یہاںذات پات کی بنیادوں پر اپنی حکمت عملی تیار کر رہی ہے ۔ بی جے پی نے بی ایس یدیورپا کی صورت میں لنگایت برادری کو چیف منسٹر کا عہدہ دیا تھا ۔ جب چیف منسٹر کو تبدیل کیا گیا تو لنگایت برادری سے تعلق رکھنے والی بومائی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔ اب جبکہ ایک بار پر یدیورپا کو سرگرم کیا جا رہا ہے اور انہیں پارلیمانی بورڈ میں شامل کیا گیا ہے تو لنگایت برادری کی بالادستی کو برقرار رکھا گیا ہے ۔اب بی جے پی دوسری برادریوں کے ووٹ حاصل کرنے کے منصوبے سے چیف منسٹر کے عہدہ میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے ۔ بسوا راج بومائی کو تبدیل کرتے ہوئے کسی دوسری با اثر برادری سے تعلق رکھنے والے لیڈر کو یہ عہدہ سونپنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح بی جے پی اس معاملہ میں دوہرے معیارات پر عمل کر رہی ہے ۔