پیرس۔فرانسیسی کابینہ نے انتہا پسندی کے خلاف ایک قانون کو منظوری دیدی ہے۔ گھریلو مدرسوں‘ نفرت پر مشتمل تقاریر اور دیگر معاملے پر شکنجہ کسنے والے قوانین بنائے ہیں۔
بی بی سی نیوز میں شائع رپورٹ کے بموجب اس قانون میں انٹرنٹ پر کسی بھی ذاتی جانکاری کی ناجائز تفہیم پر دفعات بنائے گئے ہیں۔
حالانکہ جونیر اسکول کی ایک ٹیچرسامیول پیٹی پر حملہ سے قبل ہی انتہاپسندی کے خلاف قانون متعارف کروانے کا ایک منصوبہ تھا مگر اس کے قتل نے قانون لانے کے لئے حالات کو مزید سازگار بنادیاہے۔
وزیراعظم کے نظریات
مسودہ قانون پر اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہوئے فرانس کے وزیراعظم جین کاسٹیکس نے دعوی کیاہے کہ مسلم انتہا پسندی سے چھٹکارہ دلانے والا قانون ہے۔
اس کو ”تحفظ کا قانون“ قراردیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔مذکورہ فرانس کی حکومت مساجد کو بھی نشانہ بنارہی ہے جو شدت پسندی پھیلنے میں مبینہ طور پر ملوث ہیں
قانونی دفعات
مذکورہ قانون کے تحت حکومت کو منظوری دی گئی ہے کہ غیر ملکی فنڈس حاصل کرنے سے مساجد کو روکا جائے۔
والدین کو دئے گئے احکامات میں بچو ں کوزیر زمین اسلامک اداروں میں داخلہ سے دلانے سے روکنا بھی ہے‘ مذکورہ قانون میں تین سے زائد عمر کے بچوں کو گھریلومدرسوں میں داخل کرنے سے روکنے کی سختی کی گئی ہے۔اس کے علاوہ قانون جبری شادی اورلڑکیوں کے غیر شادی شدہ ہونے کی تصدیق پر مشتمل جانچ کے خلاف بھی دفعات نافذ کئے گئے ہیں۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ فرانس کے صدر ایمیونل میکرون کو مذکورہ ٹیچر کے قتل کے بعد ان کی حکومت کی جانب سے کی گئی کاروائی پر مسلم اکثریت والے ممالک کی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس قانون کی وجہہ سے فرانس کے ترکی کے ساتھ تعلقات میں مزید کھٹاس پیدا ہونے کی توقع ہے۔
احتجاج پاکستان‘ بنگلہ دیش اور لبنان میں بھی کیاگیاتھا۔
فرانس میں بعض سیاسی قائدین نے اس قانون پر اعتراض جتایاہے اور کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کوبدنام کیاجائے گا۔