انسانى سوچ، كوشش اور ذمه دارى۔ از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

,

   

پانى پہاڑى سے وادى ميں ايك نظام كے تحت گرتا ہے، اور اس كے بر عكس كبهى نہيں ہوتا، احسن الخالقين نے يه كائنات اسى طرح بنائى ہے كه مخصوص نتائج ومقاصد كا حصول كچه حوادث ووقائع پر منحصر ہو اور وه ايك ترتيب زمانى اور تسلسل عوامل ووجوہات كے مطابق ظہور پزير ہوں، اس قانون ميں بڑى حد تك استقلال ہے، با قاعدگى، دوام اور اعتباريت ، ہم اسباب ومسببات كا علم حاصل كرتے ہيں، انہيں برتتے ہيں، اور انہيں كى روشنى ميں اپنے عمل يا رد عمل كا اظہار كرتے ہيں۔

اگر ہم قوانين وشرائع ربانى كو ٹهيك ٹهيك بجا لاتے ہيں، جلد بازى سے بچتے ہيں اور صبر وتحمل كى روش اپناتے ہيں تو ہميں مطلوبه نتائج ومقاصد كے حصول كا تحفه عطا ہوتا ہے، اور اگر ہم ان قوانين سے واقفيت حاصل نہيں كرتے يا ان كو نظر انداز كرتے ہيں اور ان كو اختيار كرنے سے گريز كرتے ہيں تو ہميں ان نتائج ومقاصد سے محروم ہونا پڑتا ہے، اور فطرت سے انحراف كا خميازه بهگتنا ہوتا ہے، ان قوانيں كو برتنے ميں سارى مخلوقات مساوى ہےى، جمادات، نباتات اور حيوانات سب نواميس فطرت كے پابند ہيں، اور ان كى مخالفت كرنے پر جو انجام مقدر ہے اس سے كسى كو مفر نہيں۔

مثال كے طور پر نباتات كے نشو نما كے لئے لازم ہے كه ماحول كے اندر پانى، روشنى اور مناسب غذائيت موجودہو، ان كے بغير پودے نہيں اگ سكتے خواه ان كے اگانے كى خواہش كتنى ہى شديد ہو، اسى طرح انسان كى عملى زندگى ميں كسى سفر كى تكميل صرف تصور وخيال آفرينى كے سہارے نہيں ہو سكتى، بلكه يه سفر اراده، منصوبه بندى اور صحيح كار روائيوں كے تابع ہے، اور ضرورى ہے كه ان اقدامات ميں واقعى ترتيب اور تسلسل كا لحاظ ہو، جب ان امور كا اہتمام ہوگا تو نتائج برآمد ہوں گے۔

 اگر ايسا نه ہو تو اس كا مطلب ہوگا كه جادو سچ ہے اور سائنس جهوٹ، ليكن بات وہى ہے جو بيان ہوئى، اور سنہرے خواب ديكهنے والوں كے لئے حقائق پر قائم اس دنيا ميں صرف سراب ہے اور مايوسى كا ديو قاتل ۔

 ايسا كيوں ہے؟ اس كا جواب يه ہے كه خالق كائنات نے دنيا اس طرح بنائى ہے كه انسان اپنے اعمال كا ذمه دار ہو اور ايك روز جواب ده ہو، ذمه دارى كو فروغ دينے كے لئے جو فضا دركار ہے اس كى تخليق كى گئى ہے، اور جو وقت مطلوب ہے اسے فراہم كيا گيا ہے، يه ذمه دارى انسانوں كى سب سے بڑى دولت ہے، منظم جد وجہد سے دامن چهڑانا اور جادو يا تمنائے خام كى راه اپنانا ذمه دارى كے مقدس تحفه كو مسترد كرنے كے ہم معنى ہے۔

 اس ذمه دارى كو عملى جامه پہنانے پر ہر چيز كا انحصار ہے – اس زندگى كى كاميابى اور آخرت كا خوش نصيب فيصله۔

 موجوده سائنس كى تمام تر معقوليت كے با وجود يه حقيقت اصحاب فكر ودانش پر عياں ہے كه عملى تطبيقات كے موقع پر اس كے علمبردار غير علمى رويه اپناتے ہيں، طبيعاتى اصولوں كى دهجياں اڑا ديتے ہيں، اور سائنس كو مسخ كركے اسے جادو يا تمنائے خام كى شكل دے ديتے ہيں، اس كى سب سے واضح مثال خاص طور سے ہندوستان ميں موجود ہے، اور وه ہے منظم طور پر اور جان بوجهكر غذائى مواد كى تكثير اور حشرات كش دواؤں كے استعمال پر مكمل توجه، تاكه پيسه بنانے والى فصلوں كى پيداوار زياده سے زياده كى جاسكے، اس عمل كا انجام ہے زمين كى بربادى، لا تعداد مائكرو حياتيات اور حشرات كى موت ،حالانكه ان كا وجود طبعى دنيا كى صحت مندى كے لئے ضرورى ہے، اس سكٹر ميں سائنس اور ٹكنالوجى نے جو كچه كيا ہے وه طبعى نظام كے تئيں ذمه دارى سے دستبردارى ہے تاكه جلد از جلد زياده سے زياده پيسه بنانے كى تنگ ترين خواہش پورى ہوسكے، خواه اس كے لئے عالم طبيعيات، غريب انسانوں اور مستقبل كى سارى نسلوں كى بهينٹ چڑها دى جائے۔

 لہذا انسانى كوششوں كى معقوليت كے ساته يه ضرورى ہے كه ان كوششوں كا رخ ان اقدار كے حصول كى طرف ہو جو آخرت پر يقين اور يوم حساب كے مالك كے ڈر سے ماخوذ ہوں۔

 ہم مسلمان بجائے اراده، منصوبه بندى اور صحيح منظم عملى اقدامات كے محض آرزوؤں اور خوابہائے شيريں سے دنيا وآخرت ميں كاميابى حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور كسى قسم كى ذمه دارى قبول كرنے كے لئے تيار نہيں۔