ڈاکٹر ساجد خاکوانی
محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ ’’ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے جواپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہاتھا۔ تب آپ ﷺنے فرمایا کہ’’ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ حیادراصل ایمان کاایک حصہ ہے‘‘۔ایک اور صحابی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بتایاکہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ ’’شرم و حیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے‘‘۔
محسن انسانیت ﷺ نے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ’’شرم و حیا‘‘ ہے۔ ایک بار محسن انسانیت ﷺ نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتارہ‘‘۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جوواحد سبب ہے وہ شرم و حیاہے اور جب کسی میں شرم کا فقدان ہو جائے اور حیا باقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کریگا اور جب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتا ہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب اﷲ تعالی کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تو اس سے شرم و حیا چھین لیتا ہے‘‘۔
ایک طویل حدیث مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اﷲ تعالی سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے، لوگوں نے عرض کیا کہ الحمد ﷲ ہم اﷲ سے حیا کرتے ہیں، محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا نہیں، حیا کا مفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ اﷲ تعالی سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھراہے ان سب کی نگرانی کرو،اور موت کواورموت کے بعد جوکچھ ہونے والا ہے اس کو یاد کرو، پس جس نے ایسا کیا سمجھو اس نے اﷲ سے حیاکرنے کاحق ادا کر دیا‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں فکرو عمل سے موت و حیات تک کے تمام امور میں حیاکادرس دیا گیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ حیاکی سب سے زیادہ حق دار اﷲ تعالی کی ذات ہے، اور چونکہ اﷲ تعالی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لئے کھلے چھپے ہرحال میں اﷲ تعالی سے حیاکی جائے اور اﷲتعالی سے حیاکا مطلب اﷲ تعالی کاتقوی اختیارکیاجائے اور جلوت ہو یا خلوت برائیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سبقت اختیار کرنا ہی تقوی ہے۔ حضرت ابن حبان سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا’’اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو(کسی کے سامنے نہ کھولو)سوائے اپنی بیوی اور باندی کے، میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیا تنہائی میں بھی؟ (شرم گاہ نہ کھولی جائے) محسن انسانیت ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا: ’’اﷲ تعالی اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔ اسی لئے ہر قبیح قول وفعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامن عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیا کرتے تھے، برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاک نے کبھی آپ ﷺ کوبرہنہ نہ دیکھا تھا۔ بعد از بعثت حضرت جرہد ابن خویلد سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران (بھی) ستر میں شامل ہے‘‘۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’اے علی اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یا مردہ آدمی کی ران کی طرف نظر بھی نہ کرو‘‘۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کے ستر کی طرف نگاہ نہ کرے‘‘۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے تو یہاں تک روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا’’لوگو (تنہائی کی حالت میں بھی) برہنگی سے پرہیز کرو(یعنی ستر نہ کھولو) کیونکہ تمہارے ساتھ فرشتے ہروقت موجود ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے لہذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام کرو‘‘۔ چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں کہ سوائے قضائے حاجت اور وظیفہ زوجیت کے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں اور بالکل الف ننگا ہو کر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے پس دوران غسل بھی کسی کپڑے سے ستر یا ننگ کا ڈھکا ہونا ضروری ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’عورت گویا ستر (چھپی ہوئی) ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں‘‘۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قول رسول ﷺ پہنچاہے کہ ’’اﷲ تعالی کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھا جائے‘‘۔
گزشتہ اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔ اﷲتعالی کا سب سے سخت ترین عذاب قوم لوط پر آیا جو اجتماعی اور انفرادی عذاب بھی تھا۔اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرعام کیا کرتے تھے۔قوم لوط کے لوگوں کی گفتگو ئیں، حرکات و سکنات، محلے وبازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے، تب وہ غضب خداوندی کے مستحق ٹھہرے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہ کونصیحت کرتے ہوئے فرما یا’’اے علی رضی اللہ عنہ (اگرکسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو) دوبارہ نظر نہ کرو، تمہارے لیے(بلاارادہ) پہلی نظر توجائز ہے مگردوسری نظر جائز نہیں‘‘ چنانچہ اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میںدریافت کیاگیاتومحسن انسانیت ﷺ نے فرمایا’’ادھرسے اپنی نگاہ پھیر لو‘‘۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا’’جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے تو اﷲ تعالی اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مرد مومن کو محسوس ہو گی‘‘۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’ایسا ہرگزنہیں ہو سکتا کہ کوئی (نامحرم) آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو‘‘۔ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’تم (نامحرم) عورتوں کے پاس جانے سے بچو (اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)‘‘۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ نے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کروجن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘۔