انسانی حقوق پر ضرب

   

افسوس تو ہوتا ہے مجھے سن کر لیکن
تمہاری تو عادت ہے، برا کرتے ہو

انسانی حقوق پر ضرب
دستور کے آرٹیکل 21 کے تحت شہریوں کو جو حقوق دیئے گئے ہیں انہیں سلب کرنے کی کوشش کا اگر عدالتوں نے نوٹ نہیں لیا تو پھر ہندوستان جیسے وسیع تر جمہوری ملک میں برسراقتدار طاقتیں اپنی مرضی چلانے میں کامیاب ہوں گی۔ عاملہ کی جانب سے اختیارات کا بیجا استعمال ہوتا ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھنی چاہئے۔ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ ایک آزاد اور جمہوری ملک کو اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے لیکن مرکز کی مودی حکومت کے خلاف الزام ہے کہ وہ گذشتہ 7 سال کے دوران ملک میں غداری اور ملک دشمنی جیسے الزامات کو ہوا دے کر اپنے مخالفین کو خاموش کرنے میں طاقت کا بیجا استعمال کررہی ہے۔ آزادی سے قبل ہندوستانی عوام کے خلاف غداری جیسے الفاظ اور غداری کے قوانین کو برطانوی حکمران استعمال کرتے تھے تاکہ آزادی کی تحریک کو کچل دیا جائے۔ ان دنوں یہی عمل خود ہندوستان کی حکومت اپنے شہریوں پر آزمارہی ہے۔ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں ٹوئیٹ کرنے یا ٹول کٹ کے مسئلہ پر ماحولیاتی کارکن دشاروی کی گرفتاری اور دیگر کے خلاف غداری کے الزامات کے ساتھ سازش کرتے ہوئے ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کا بھی الزام ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں اظہارخیال کی آزادی کی فضاء پیدا کی جاتی ہے کسی بھی مہذب معاشرہ کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہیکہ ہر شہری بلاخوف و خطر اپنے خیالات کا اظہار کرے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ہندوستانی شہریوں سے پرامن طور پر احتجاج کرنے کے حق کو بھی چھین لیا جارہا ہے۔ پولیس نے جن 3 کارکنوں کے خلاف ملک کے خلاف غداری کرنے کے الزامات لگائے ہیں اس کے تعلق سے اب تک کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں اور جو کچھ بھی ثبوت حاصل ہوئے ہیں وہ پولیس کے الزامات کو درست قرار دینے کیلئے کافی نہیں ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور دیکھی جارہی ہیکہ جو لوگ احتجاج کررہے ہیں ان کو خوفزدہ کرنے کیلئے پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ زرعی قوانین کے خلاف کسان غربت کو کچل دینے کیلئے نئے حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔ حکومت جب کسی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے بجائے مسئلہ اٹھانے والوں کو ہی کچل کر رکھ دینا چاہتی ہے تو اس سے بھیانک صورتحال رونما ہوگی۔ شہریوں کو ان کے ہی ملک میں ناانصافی کا شکار ہونا پڑے گا۔ دنیا کے تمام جمہوری ملکوں نے اظہارخیال کی آزادی اور غداری کے درمیان ایک درست توازن تلاش کرنا شروع کیاہے۔ بعض ملکوں نے غداری قانون کو ہی ختم کردیا ہے۔ 2009ء میں برطانیہ نے بھی یہ قانون ختم کردیا تھا لیکن ہندوستان میں ان دنوں اس قانون کا زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ یہ قانون برطانیہ کی میراث ہے جو ہندوستان کو ورثہ میں ملی ہے۔ اس قانون کے دفعہ 124A کو تعزیرات ہند کے دفعہ کے چاپٹر VI میں 1870 کو شامل کیا گیا تھا تاکہ ملک کے خلاف سرگرمیوں سے نمٹا جاسکے۔ اب اصل سوال یہ ہیکہ آیا پولیس نے جن 3 کارکنوں دیشاروی، نکیتا جیاکب اور شنتانو ملک کے خلاف غداری قانون نافذ کیا ہے اس کو منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ یا پھر یہ صرف حالات کے خلاف آواز اٹھانے کی سزاء ہے۔ دہلی پولیس نے ان 3 کارکنوں کو حکومت ہند کے خلاف بین الاقوامی سازش کا حصہ بننے کا کیس درج کیا ہے۔ عدالت نے بھی ان کی درخواست ضمانت کو مسترد کردیا۔ دشاروی کی گرفتاری کے پانچ دن بعد فرائی ڈے فار فیوچر گروپ بنانے والی گریٹا تھنمبرگ نے پھر ایک ٹوئیٹ کیا اور کہا کہ اسی طرح کی کارروائیوں سے ہماری آواز مزید بلند ہوگی اور پرامن و ذمہ دارانہ طور پر ہر ایک کیلئے انصاف کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ سوڈیش ماحولیات کی کارکن گریٹا تھنمبرگ نے 22 سالہ دشاروی کی حمایت کی ہے۔ بہرحال ملک اور بیرون ملک یہ بات عام ہورہی ہیکہ ہندوستان میں انسانی حقوق کو سلب کرلیا جارہا ہے۔ اب متعلقہ حکام اور حکومت کی ذمہ داری ہیکہ وہ ہندوستانی جمہوریت کے وقار کو مزید ضرب پہنچانے سے گریز کرے۔
کورونا وبا ابھی ختم نہیں ہوئی
ہندوستان کی کئی ریاستوں میں کورونا وبا دوبارہ پھیلنے کی خبریں تشویشناک ہیں۔ مہاراشٹرا اور کیرالا میں اس وبا کے تازہ کیس یا نئی شکل کی وبا پھیلنے سے عوامی زندگی دوبارہ متاثر ہوسکتی ہے۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے حکومت کی توجہ اس نازک صورتحال کی جانب مبذول کروائی ہے۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے گذشتہ سال جنوری میں ہی وبا پھوٹ پڑنے کے امکانات کی جانب حکومت کی توجہ دلائی تھی لیکن حکومت نے بیرونی ملکوں سے آنے والے افراد کا ایرپورٹس پر معائنہ نہیں کروایا نتیجہ میں مارچ 2020ء میں یہ وبا ملک بھر میں پھیل گئی اور حکومت کو ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑا تھا۔ اس مرتبہ ہندوستان میں کوروناوائرس کی جنوبی افریقہ اور برازیل میں سامنے آنے والی نئی شکل کی وبا داخل ہونے کے بعد اس سلسلہ میں احتیاط برتی جانی چاہئے۔ حکومت نے وبا کی نئی شکل کو اہمیت نہیں دی ہے۔ حکومت اس طرح غفلت کا شکار ہوکر ہندوستانی شہریوں کو ایک اور خطرے سے بے خبر رکھ رہی ہے۔ مہاراشٹرا اور کیرالا کی طرح تلنگانہ میں بھی کورونا وائرس کی نئی شکل کے ساتھ کیسوں میں اضافہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ بظاہر کوروناوائرس کی شدت میں کسی قدر کمی آئی ہے لیکن یہ وائرس اب بھی پھیل رہا ہے۔ حکومت کورونا ویکسین عوام تک پہنچانے میں بھی سست روی سے کام کررہی ہے۔ وائرس دھیمی رفتار کے درمیان نئے کیسیس میں اضافہ ہورہا ہے تو حکومت کو ویکسین دینے کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تک صرف ایک کروڑ ایک لاکھ افراد کو کورونا کے ٹیکے دیئے گئے ہیں جبکہ 130 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں ٹیکہ اندازی کی مہم کو تیزی سے چلانے کی ضرورت ہے۔ قومی دارالحکومت دہلی میں روزانہ کے کیسوں میں اضافہ کے باوجود حکومت اس سلسلہ میں غفلت کا شکار ہے تو عوام کو اپنے طور پر احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔