انسانی عظمتعقیدہ ٔتوحید میں مضمر

   

دین اسلام ، انسان کی روحانی اور مادی تمام تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے اور وہ دینی و دنیوی ، روحانی و مادی ہر اعتبار سے انسانی فلاح کا ضامن ہے ۔ اسلام کا دیگر مذاہب و ادیان میں وجہہ امتیاز اس کا تصورِ توحید اور تصورِ آخرت ہے ۔ چونکہ صوفیاء کرام درحقیقت فلاسفر ہوتے ہیں وہ اشیاء کی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں ، انھوں نے ہمیشہ توحید و آخرت پر ہی تمام تر توجہہ مرکوز رکھی ہے اور یہی دین اسلام کا خلاصہ اور ماحصل ہے ۔ بالعموم ہم توحید کو عبادت اور آخرت میں اجر و جزاکے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عقیدۂ توحید کا لازمی نتیجہ انسانی عظمت ہے جب ایک انسان اﷲ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک تسلیم کرلیتا ہے تب وہ دنیا کی ہر غلامی سے نجات پاتا ہے اور اس کو پوری کائنات پر برتری حاصل ہوجاتی ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی ہے اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سواری دی اور ان کو اچھی چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے ان کو بہتوں پر جنھیں ہم نے پیدا کیا ہے بڑی فضیلت دی ہے ۔
زمین ، آسمان ، چاند ، سورج ، دریا ، سمندر غرض کہ کائنات کی ہرچیز انسان کی آسائش اور انتفاع کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے وہی ذات ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا ۔
عقیدۂ توحید اور اتحاد نسل انسانی : عقیدۂ توحید انسانی نسل کے اتحاد کی بنیاد ہے یہی وجہ بنیاد ہے جس پر انسانی وحدت کی عمارت استوار کی جاسکتی ہے ۔ قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کو ’’رب العلمین ‘‘ کہا گیا ہے یعنی تمام اقوام کا رب ، عربی زبان میں رب کے معنی ایک چیز کو تدریجاً ترقی دیکر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنی صفت ربوبیت کے تحت دنیا تمام اقوام کی روحانی اور جسمانی پرورش کرتا ہے گویا تمام قومیں خدا تعالیٰ کا کنبہ ہے ، وہ سب کی خبرگیری کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے واضح طورپر فرمایا : كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً ۚ یعنی سب لوگ ایک ہی قوم تھی ۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے ‘‘ توحید کا عقیدہ تمام انسانیت کو یہ درس دیتا ہے کہ وہ اتحاد اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔
عقیدۂ توحید اور مساوات : عقیدۂ توحید سے مساوات کا سبق ملتا ہے اور تفریق بین الناس اور اونچ نیچ کا مسئلہ پامال ہوتا ہے ۔ عقیدۂ توحید اسی پامال شدہ لوگوں کو اُٹھاکر بڑوں کے دوش بدوش کھڑا کرتا ہے ۔ اسلام نے نسلی ، قومی ، لسانی امتیازات کو ختم کرکے حسن عمل اور اخلاق حمیدہ کو وجہہ تکریم قرار دیا ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : ’’تم میں معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے ‘‘۔
انسانی مساوات کا مسئلہ اسلام کی رو سے اس قدر اہم تھا کہ رسول اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر جو اہم نکات پر گفتگو فرمائی تھی اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا : ’’لوگو ! بے شک تمہارا رب ایک ہے ، بے شک تمہارا باپ ایک ہے ۔ عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر ، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ‘‘ ۔
عقیدۂ توحید اور امن عالم : توحید باری تعالیٰ کا پیغام بنی نوع انسانی کے ہر طبقے تک پہنچایا گیا ہے ۔ بناء بریں وہ ہر ایک سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر آسمانی کتاب اور ہر رسول کو تسلیم کیا جائے اور مذہب کے نام پر خون خرابا نہ ہو ۔ ارشاد الٰہی ہے : ’’دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے‘‘۔ عقیدۂ توحید امن عالم کا ضامن ہے کیونکہ عقیدۂ توحید اخوت ، اتحاد ، محبت ، مساوات جنم دیتا ہے اور نفرت و عداوت اور تعصب کو بالکل ختم کرتا ہے۔ جب دشمنی اور تعصب دنیا کی قوموں سے مٹ جائے تو دنیا میں امن قائم کرنا مشکل نہیں رہتا۔ امن عالم کے خرمن کو صرف اس وجہہ سے آگ لگی ہے کہ نسلی ، لسانی اور مذہبی امتیازات کی آندھی چل رہی ہے ۔
عقیدۂ توحید اور تزکیہ نفس : روحانی اقتضاء کا لازمہ اخلاق فاضلہ کو اپنانا ہے ، انسانی فطرت اچھے اعمال کو پسند کرتی ہے اور برے کاموں سے نفرت کرتی ہے ۔ اچھے اعمال وہ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوں جو اعمال اﷲ تعالیٰ کی صفات کے منافی ہوں گے وہ برے اخلاق ہیں۔ اخلاق فاضلہ انسانیت کے آئینہ دار ہیں۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں : ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں حسن اخلاق کی تکمیل کرلوں ‘‘ ۔ واضح رہے کہ انسان کے اندر جو اخلاقی بلندی اور کمال نظر آرہا ہے وہ خدائے واحد پر ایمان لانے کا ہی ثمرہ ہے ۔ قرآن مجید میں آتا ہے : وَلِلّـٰهِ الْاَسْـمَآءُ الْحُسْنٰى ’’اسی کے لئے اچھے نام ہے ‘‘ ۔’’حُسْنٰى‘‘ کے لفظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اﷲ وہ ذات ہے جو تمام صفات حسنہ کی جامع اور تمام عیوب سے مبرا ہے ۔ ان صفات کے تحت اپنی زندگی بسر کرے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :’’اﷲ کے اخلاق اختیار کرو ‘‘۔
تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ ہر نبی نے اپنے اپنے وقت میں عقیدۂ توحید کی بناء پر اپنی اپنی قوم کو قصر مذلت سے نکال کر اخلاق حسنہ کے بلند مینار پر کھڑا کردیا ۔ فطرت کی دوسری اقتضاء مادی ہے جس میں خاندان ، معاشرہ ، معیشت ، سیاست اور قانون جیسے اُمور شامل ہیں۔ ان اُمور سے متعلق نیز مادی ضرورتوں سے متعلقہ ضروری اور جامع ہدایات دینِ اسلام کا امتیاز ہے ۔
حیات بعدالموت : انسان کی فطرت میں خدا کا تصور مرکوز ہے ۔ نیز جزا و سزا اور حیات بعد الموت کا علم سوائے مذہب کے کہیں سے حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ انسان کی اپنی عقل اس قدر دور کے نتائج کو بھانپ نہیں سکتی ۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیھم السلام کی معرفت وحی کے ذریعہ جزا و سزا کا قانون لوگوں کو بتایا اور جو لوگ اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے وہ مستوجب سزا ٹھہریں گے اور جو اس قانون کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے وہ انعامات کے وارث ہوں گے لہذا توحید کا یہی تقاضا ہے کہ انسان حیات بعد الموت پر ایمان لائے ۔ از ابتداء تا انتہاء انسانی فلاح کا محور عقیدۂ توحید ہی ہے ۔