انفراسٹرکچر، قدرتی گیاس ، ریلوے ’’برائے فروخت ‘‘

   

سبودھ ورما
مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے 23 اگست کو نیشنل مانیٹائزیشن پائپ لائن (این ایم پی) کی تفصیلات پیش کی۔ اس معاملے میں آپ لفظ ’’پائپ لائن‘‘ کو نوٹ کیجئے اور شاید اسے کہیں ڈیلیور کیا جائے گا۔ نرملا سیتا رامن کا یہ اعلان اگرچہ ملک کے شہریوں اور اپوزیشن کیلئے حیرت انگیز تھا، لیکن ملک کے صنعت کاروں اور صنعتی گھرانوں کے ساتھ ساتھ مغرب نے زبردست ستائش کرتے ہوئے خیرمقدم کیا۔ این ایم پی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم فینانس نے یہ بھی واضح کیا کہ سرکاری املاک کو فروخت کرنے یا لیز پر دینے کا فیصلہ دراصل ہمارے عزت مآب وزیراعظم نریندر مودی کے غیرمعمولی ویژن یا بصیرت کا نتیجہ ہے اور اس کے لئے تمام وزارتوں کے ساتھ تفصیلی مشاورت کی گئی اور بہت زیادہ غور و فکر کیا گیا۔ این ایم پی کے تعلق سے ایک ٹاسک فورس بھی بنائی گئی جس نے کافی تگ و دو کے بعد 2019ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ پھر بجٹ 2021-22ء جاریہ سال کے اوائل میں پیش کیا گیا۔ اس بجٹ میں یہ رہنمایانہ بصیرت یا ویژن موجود تھا۔ اس طرح تمام چیزیں انتہائی احتیاط کے ساتھ اور قابل اعتماد انداز میں کی گئی، لیکن ملک کے زیادہ تر لوگوں کیلئے این ایم پی ایک عجیب و غریب منصوبہ رہا۔ اگرچہ اس کے اثرات ایسا لگتا ہے کہ بہت دوررس ہوں گے۔ پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر نیشنل مانیٹائزیشن پائپ لائن کیا ہے؟
موجودہ بنیادی سہولتوں یا انفراسٹرکچر کو لیز پر دینا
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں تمام قسم کی بنیادی سہولتیں پائی جاتی ہیں اور یہ بنیادی سہولتیں ایسی ہیں، جس پر ہماری معیشت چلتی ہے۔ ان بنیادی سہولتوں میں سڑکیں، پلیں، ریلوے نظام، برقی پیداوار ، ترسیل کا نظام مواصلاتی نیٹ ورک، گیاس پائپ لائن، طیران گاہیں، بندرگاہیں، کانکنی یا کانیں، ویر ہاؤزسس، شہری رئیل اسٹیٹ، اسپورٹس اسٹیڈیمس وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور ان میں سے اکثر بنیادی سہولتیں پچھلے 75 برسوں کے دوران تعمیر کی گئیں اور ان کی تعمیر کیلئے سرکاری خزانہ استعمال کیا گیا۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ میں وہ رقم موجود ہوتی ہے جو حکومت محاصل (ٹیکسیس) کی شکل میں عوام سے جمع کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقت میں تمام بنیادی سہولتیں عوام کی ملکیت ہیں اور عوام کی خدمت کیلئے انہیں استعمال کیا جارہا ہے جبکہ نریندر مودی حکومت چند سکوں کی خاطر ان تمام بنیادی سہولتوں کو صنعتی گھرانوں کو لیز پر دے رہی ہے۔ اس کے لئے کئی مراحل مقرر کئے گئے ہیں جس موجودہ مرحلہ کا اعلان کیا گیا، وہ آئندہ چار برسوں 2022-25ء کیلئے ہے۔ این ایم پی سے متعلق دستاویزات کے مطابق وہ تمام بنیادی سہولتیں غیرمعمولی طور پر کارکرد ہیں اور ان کی حالت اس قدر خراب نہیں کہ انہیں کوئی خطرہ ہو یا ان کا وجود خطرہ میں پڑ جائے کیونکہ اکثر جن بنیادی سہولتوں یا جائیدادوں کا وجود خطرہ میں پڑ جاتا ہے یا عملی طور پر ان کیلئے جوکھم پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انہیں لیز پر دے دیا جاتا ہے یا فروخت کردیا جاتا ہے لیکن حکومت نے ایک حقیقی Sales Person کی طرح لیز پر دی جانے والی بنیادی سہولتوں کی قیمتوں کا تخمینہ پیش کیا ہے۔ یعنی ان بنیادی سہولتوں کی اندازاً قیمت دی ہے جس سے کہا جاتا ہے کہ سرکاری خزانہ میں 6 لاکھ کروڑ روپئے تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ سننے اور پڑنے میں یہ ایک بڑی رقم دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں گتھیوں پر کئی گتھیاں ہیں، جیسے کہ حکومت نے اس ضمن میں جدول گشت کروایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ جدول نہیں بلکہ بنیادی سہولتوں کا ’’گرانڈ سیل‘‘ ہے۔ جن سرکاری اثاثوں کو لیز پر دینے کی بات کی جارہی ہے، اسے حکومت اہم ترین شعبے قرار دیتی ہے۔ اسی طرح ان میں غیراہم شعبہ بھی شامل ہیں جنہیں توقع ہے کہ آنے والے برسوں میں فروخت کیلئے پیش کیا جائے گا۔ موجودہ طور پر دو اثاثوں کے نام لئے جارہے ہیں۔ اراضی و عمارات یہ اگرچہ عجیب سا لگتا ہے کہ لیکن یہ تصور کیجئے، سرکاری اراضیات اور سرکاری عمارتوں کی تعداد کیا ہوگی اور ان کی قیمتیں کس قدر زیادہ ہوگی۔ ظاہر ہے اراضیات و عمارتوں کی قدر و قیمت اس قدر زیادہ ہوگی جس سے ذہن چکرا جائیں گے۔ حکومت نے صرف 14% سرکاری اثاثوں کو اہم شعبوں میں شامل کیا، اور انہیں پائپ لائن میں رکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ گذرتے وقت کے ساتھ مزید سرکاری اثاثوں کو اس شعبہ میں رکھتے ہوئے لیز کیلئے پیش کیا جائے گا۔