انفلوئنزا سے نمٹنے اقدامات ضروری

   

جس طرح سارے ملک میں کورونا وائرس نے تباہی مچائی تھی اور بڑی تیزی کے ساتھ ملک کے لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوگئے تھے اسی طرح آج انفلوئنزا پھیل رہا ہے ۔ حالانکہ کورونا جیسی شدت اور تیزی اس میں دکھائی نہیں دیتی لیکن ایک بات ضرور اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے متاثرہ افراد کو دواخانوں سے رجوع ہونا پڑ رہا ہے اور انہیں شریک بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس کو H3N2 کا نام دیا گیا ہے اور اسے انفلوئنزا A کی ذیلی قسم قرار دیا جا رہا ہے ۔ اب تک ملک بھر میں اس کی وجہ سے دو افراد کی جانیں چلی گئی ہیں۔ ملک کی تقریبا ہر ریاست اور ہر ریاست کے تقریبا ہر شہر میں لوگ اس سے متاثر ہونے لگے ہیں۔ کم عمر بچے اور ضعیف العمر افراد اس کا زیادہ شکار ہونے کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں اور ان میں ز یادہ احتیاط کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ ابھی تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بہت کم لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن اس کے اثرات بہت زیادہ دکھائی دے رہے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس میں تشویش کی بات یہ ہے کہ انفلوئنزا کی وجہ سے یا پھر H3N2 کی وجہ سے بھی تنفس کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کورونا وباء کے دوران بھی وائرس سے متاثر ہونے والوں میں تنفس کے مسائل ہی زیادہ پیدا ہو رہے تھے ۔ ملک بھر میں آکسیجن کیلئے دوڑ دھوپ ہو رہی تھی ۔ بے شمار لوگ ایسے بھی رہے جنہیں وقت پر آکسیجن دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ان کی جانیں چلی گئیں۔ حالانکہ حکومت آکسیجن کی قلت سے انکار کرتی رہی ہے لیکن دواخانوں کے باہر آکسیجن کیلئے جدوجہد کرتے متاثرین کی تصاویر آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بہت زیادہ سردی سے موسم اب چونکہ گرم ہوتا جارہا ہے اس وجہ سے بھی لوگوں میں انفلوئنزا کے اثرات عوام میں زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ عوام کو اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹرس اور ماہرین طب کا مشورہ دہے کہ گھریلو ٹوٹکوں اور چٹکلوں سے علاج کی بجائے ڈاکٹرس سے مشورہ کرنا زیادہ ضروری ہے ۔
جہاں تک H3N2 کا سوال ہے اس کے نتیجہ میں انسانوں میں تنفس کا عارضہ لاحق ہو رہا ہے اس لئے اس معاملے میں زیادہ چوکسی کی ضرورت ہے ۔ اس وائرس کے اثرات پرندوں اور دیگر جانوروں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں اورا ن میں کئی اقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کے متاثرین میں جو عام علامات پائی جاتی ہیں ان میں شدید سردی ‘ کھانسی ‘ بخار ‘ قئے ہونا ‘ گلے میں خراش یا سوجن ‘ اعضاء شکنی وغیرہ شامل ہیں۔ عوام اکثر و بیشتر ان علامات کو معمولی سمجھتے ہوئے گھریلو ٹوٹکوں سے علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ موجودہ صورتحال میں ماہرین طب کا مشورہ ہے کہ اس طرح کے ٹوٹکوں سے علاج سے گریز کیا جانا چاہئے اور ڈاکٹرس کے مشورے کے مطابق ادویات استعمال کی جانی چاہئیں تاکہ اس انفلوئنزا کے اثرات کو جلد سے جلد زائل کیا جاسکے ۔ جس طرح سے کورونا میں دعوی کیا گیا تھا کہ یہ ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے اسی طرح ماہرین کا اب بھی ماننا ہے کہ کھانسنے اور چھینکنے کے علاوہ انتہائی قریب سے بات چیت کرنے سے بھی انفلوئنزا کے اثرات ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ حاملہ خواتین ‘ کمسن بچوں اور ضعیف العمر افراد کو زیادہ احتیاط کا مشورہ دیا گیا ہے کیونکہ ان میںاس سے متاثر ہونے کے اندیشے زیادہ ہیں۔ موجودہ صورتحال میں عوام میں اس تعلق سے تشویش پیدا ہوگئی ہے اور وہ اپنی صحت کے تعلق سے فکرمند ہیں۔ ایسے میں ماہرین طب اور حکومت کی جانب سے عوامی تشویش کو دور کرنے اقدامات ضروری ہیں۔
عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہدیتے ہوئے حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ حکومت کو اس پر قابو پانے کے اقدامات کنے ہونگے ۔ عوام میں شعور بیداری کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ ادویات کی فراہمی پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ عارضہ تنفس کا شکار افراد کو آکسیجن کی قلت نہ ہونے پائے ۔ ڈاکٹرس کو مستعد اور چوکس کرنے کی ضرورت ہے ۔ طبی اور نیم طبی عملہ کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے عوام کو اس کے اثرات سے نجات دلانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام خوف و ہراس کا شکار ہونے نہ پائیں۔