دردِ دل کی کچھ دوا مل جائے گی
درد کا کوئی صلہ ملتا نہیں
ہندوستان میں جس وقت سے مرکز میں نریندرمودی کی حکومت قائم ہوئی ہے اس وقت سے ہی یہ الزامات عائد کئے جانے لگے ہیں کہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا بیجا استعمال ہو رہا ہے اور انہیں اپوزیشن کو نشانہ بنانے کیلئے اور سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں مسلسل یہ الزامات عائدکرتی جا رہی ہیں اور جن جماعتوں اور قائدین نے بی جے پی سے اتحاد کرلیا ہے یا بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیںان کے خلاف پہلے سے درج مقدمات بھی بند کئے جا رہے ہیں۔ جو جماعتیں بی جے پی یا حکومت کے خلاف نبرد آزما ہیں ان کے خلاف یکے بعد دیگرے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ دھاوے کئے جا رہے ہیں اور ان کو جیلوں میں بھی بند کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ وقت کے موجودہ چیف منسٹروںکے خلاف بھی کارروائیاں کرتے ہوئے انہیں جیلوںکو بھیج دیا گیا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تمام معاملات میںعدالتوں سے ای ڈی اور دوسری مرکزی ایجنسیوں کو بھی پھٹکار کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کی سرزنش کی گئی ہے ۔ جہاں تک انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا سوال ہے اس کو بھی عدالتوں سے پھٹکار کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ایک سے زائد مرتبہ اس کی کارروائیوں پر تنقیدیں ہوئی ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ نہ ای ڈی اپنے کام کاج میں کسی طرح کی بہتری اور غیرجانبداری لانے کو تیار ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت کی جانب سے ان ایجنسیوں کے بیجا استعمال کاسلسلہ روکا جا رہا ہے ۔ ابتازہ ترین واقعہ میں سپریم کورٹ نے ٹاملناڈو میں شراب کی دوکانات پر دھاووں کے دوران ای ڈی کی ضرورت سے زیادہ سرگرمی پر تنقید کی ہے اور کہا کہ ای ڈی نے اپنے حدود سے تجاوز کردیا ہے ۔ وہ تمام حدود کو پھلانگ رہی ہے اور وفاقی طرز حکمرانی کے نظریہ کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ای ڈی کو فی الحال اپنی کارروائیوں کا سلسلہ روک دینے کو کہا ہے ۔ ای ڈی کا دعوی ہے کہ ٹاملناڈو میں سرکاری طور پر چلائی جانے والی شراب کی دوکانات میں بد عنوانیاں ہیں ۔ شراب کی منتقلی اور دوسری سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس مسئلہ پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوائی نے سرکاری وکیل سے کہا کہ ای ڈی کی جانب سے تمام حدود کو پھلانگا جا رہا ہے ۔ کسی فرد کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے تاہم کارپوریشن کے خلاف کس طرح مقدمات درج کئے جاسکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت اور تعطیلات کے بعد جواب دخل کرنے کو کہا ہے ۔ آئندہ کی کارروائیوں پر بھی عدالت نے حکم التواء جاری کردیا ہے ۔ عدالتوں کی جانب سے اس طرح کی پھٹکار اورسرزنش کا سامنا کرنے کے باوجود نہ ای ڈی کے رویہ میں تبدیلی آ رہی ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت کی جانب سے مداخلتوں کا سلسلہ بند ہو رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور ان کی غیر جانبداری پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ تحقیقات کے نام پر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا یا ہراساں کرنا کسی بھی حال میں درست نہیں کہا جاسکتا ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو کسی طرح کے سیاسی دباؤ کو تسلیم کئے بغیر اپنی تحقیقات کو غیرجانبدارانہ انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ مقدمات چاہے جو کچھ بھی رہے ہوں ان کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا نہیں جانا چاہئے ۔ قانون کی کسی بھی خلاف ورزی کو قانونی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے تحقیقات انجام دی جانی چاہئے اور جس کسی نے کوئی غلط کام کیا ہے اس کے جرم کو ثابت کرتے ہوئے اسے قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعہ سزائیں دلوائی جانی چاہئیں اور یہی تحقیقاتی ایجنسیوں کا فریضہ ہے ۔
ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے کی حکومت ہے جو سیاسی اعتبار سے بی جے پی کی کٹر مخالف ہے ۔ کانگریس کے ساتھ انڈی ااتحاد میںشامل ہے اور ایک مضبوط اورطاقتور جماعت ہے ۔ سیاسی مخالفت کی بناء پر اس کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بنانا انتہائی افسوس ناک ہے ۔ بات صرف ٹاملناڈو یا ڈی ایم کے تک بھی محدود نہیں ہے ۔ سارا معاملہ ایجنسیوں کے بیجا استعمال اور ان کی ساکھ کے متاثر ہونے کا ہے ۔ اس سلسلہ کو کم از کم اب روکا جانا چاہئے تاکہ مرکزی ایجنسیوں کی ساکھ مزیدبگڑنے نہ پائے اور وفاقی طرز حکمرانی کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو ۔ حکومت کو بھی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کا سلسلہ ترک کردینا چاہئے ۔