غریب طلبہ کی تعلیم پر منفی اثر ، کم بجٹ والے خانگی اسکولس کے مسائل حل کرنے حکومت سے مطالبہ
حیدرآباد ۔ 15 ۔ جون : ( سیاست نیوز) : انٹرنیشنل و کارپوریٹ اسکولس کی من مانی اور لوٹ کھسوٹ سے گلی کوچوں میں سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے غریب خاندان کے طلبہ کو تعلیم فراہم کرنے والے خانگی کمیونٹی اسکولس کی امیج متاثر ہورہی ہے ۔ ان کم بجٹ والے خانگی اسکولس انتظامیہ نے تلنگانہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے مسائل پر فوری توجہ دی جائے اور پیاکیج فراہم کریں ۔ یا کم از کم سبسیڈی پر مشتمل بلا سودی قرض فراہم کریں ۔ کورونا وائرس کے بعد ملک میں نافذ کردہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت پر اس کا بڑا اثر پڑا ہے ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ادارہ ہو کہ شخصیت سب اس کی زد میں آگئے ہیں تعلیمی ادارے بھی اس کی پوری طرح لپیٹ میں ہیں مگر قارئین کو یہ جان لینا ضروری ہے کہ خانگی تعلیمی اداروں کے چار زمرے ہیں ایک ہی زمرے میں تمام خانگی تعلیمی اداروں کو شامل کرنا کم بجٹ اور سلم علاقوں میں غریب طلبہ کو تعلیم دینے والے خانگی تعلیمی اداروں سے نا انصافی ہوگی ۔ خانگی تعلیمی اداروں میں انٹرنیشنل اسکولس ہیں جن کی تعداد صرف 5 فیصد ہیں جن کی تعلیمی فیس دیگر سرگرمیوں کے لیے لاکھوں روپئے وصول کئے جاتے ہیں ۔ دوسرے درجہ میں کارپوریٹ اسکولس کا شمار ہوتا ہے ۔ ان کی تعداد 15 فیصد ہیں ان اسکولس میں بھی بہت زیادہ فیس وصول کی جاتی ہے ۔ تیسرے زمرے میں پرائیوٹ بجٹ کے اسکولس آتے ہیں جن کی تعداد 30 فیصد ہے ۔ ان اسکولس میں پہلے اور دوسرے زمرے کے اسکولس سے کم فیس وصول کی جاتی ہے ۔ چوتھے درجے میں کمیونٹی اسکولس کا شمار ہوتا ہے ۔ جن کی تعداد 50 فیصد ہے ۔ جہاں پر ماہانہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپئے تک فیس وصول کی جاتی ہے ۔ کمیونٹی اسکولس میں اکثریت غریب و سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندان کے بچے زیر تعلیم ہیں ۔ یہ کمیونٹی اسکولس غریب بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کافی اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ ان اسکولس پر حکومت کی کوئی مہربانی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان اسکولس پر حکومت کو رحم بھی آتا ہے ۔ سارے تلنگانہ میں خانگی اسکولس میں جہاں 20 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں وہیں کمیونٹی اسکولس میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد تقریبا 10 ہزار ہے ۔ پرانے شہر میں بھی کمیونٹی اسکولس کا جال بچھا ہوا ہے جو غریب و متوسط طبقہ کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں غیر معمولی رول ادا کررہے ہیں مگر لاک ڈاؤن کا بھی ان کمیونٹی اسکولس پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے ۔ ان اسکولس میں فیس کے علاوہ دوسری سرگرمیوں کی کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی ۔ ساتھ ہی ٹیچرس کو 4 ہزار تا 15 ہزار روپئے تک ماہانہ تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں ۔ بلڈنگ کا کرایہ اور برقی بلز وغیرہ پر طلبہ سے جو فیس وصول کی جارہی ہے اس کا 80 فیصد حصہ خرچ کردیا جاتا ہے ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں مگر بلڈنگ کا کرایہ ، برقی ، آبرسانی بلز اور جائیداد ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ ، ٹیچرس کو مکمل نہیں تو 50 فیصد تنخواہ ادا کرنی پڑرہی ہے ۔ کرایہ کی عدم ادائیگی پر بعض مالکین کی جانب سے انتظامیہ کو اسکولس خالی کردینے کی ہدایت بھی وصول ہورہی ہے جب کہ چند خانگی کمیونٹی اسکولس کی جانب سے غریب طلبہ کے سرپرستوں میں راشن کٹس بھی تقسیم کئے گئے ہیں ۔ آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن گریٹر حیدرآباد کے صدر محمد محمود علی سہیل نائب صدر سید شہباز احمد ، نسا تنظیم کے اسٹیٹ کوآرڈینٹر ڈاکٹر محمد انور ، ایٹا تنظیم گریٹر حیدرآباد کے میڈیا سکریٹری محمد شوکت ، سید نور الدین علی عابد ، اعجاز حسین اور عبدالصبور کے علاوہ دوسرے نمائندوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کمیونٹی اسکولس پر فوری توجہ دیں ۔ ورنہ ان اسکولس کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی ۔ ساتھ ہی انہوں نے طلبہ کے والدین اور سرپرستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ لاک ڈاؤن سے پہلے کی فیس بقایا جات فوری ادا کرتے ہوئے اسکولس کے مالی استحکام میں تعاون کریں ۔۔
