انڈیا اتحاد میں بے چینی ؟

   

ملک میں لوک سبھا انتخابات سے قبل تشکیل پائے انڈیا اتحاد کی جماعتوں میں ایسا لگتا ہے کہ بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ پہلے ہریانہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی کی شکست اور پھر مہاراشٹرا میںمہا وکاس اگھاڑی کی شکست کے بعد انڈیا اتحاد کی جماعتوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے اور یہ جماعتیں اپنی شکستوں کی وجہ سے پریشان دکھائی دے رہی ہیں ۔ حالانکہ کانگریس پارٹی ان شکستوں کو انتخابی دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کا نتیجہ قرار دے رہی ہے تاہم پارٹی کیڈر اور کارکنوں میں اس طرح کی صورتحال پر فکر و تشویش پیدا ہونے لگی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انڈیا اتحاد کی جماعتیں الگ الگ باتیں کرتی نظر آ رہی ہیں۔ سب سے پہلے تو مہاراشٹرا میں سماجوادی پارٹی نے مہا وکاس اگھاڑی سے دستبرداری اختیار کرلی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ شیوسینا ادھو ٹھاکرے کے ایک لیڈر کی جانب سے بابری مسجد کے تعلق سے دئے گئے بیان کے بعد سماجوادی پارٹی میں ناراضگی پیدا ہوگئی تھی ۔ سماجوادی پارٹی اترپردیش میں مسلمانوں کے ووٹ گنوانا نہیں چاہتی ۔ سماجوادی پارٹی کو اترپردیش میں مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ ہے اور اسی کے ذریعہ پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی درج کروائی تھی ۔ بابری مسجد مسلمانوں کیلئے اب بھی ایک حساس اور اہم مسئلہ ہے حالانکہ یہ مسئلہ قانونی طور پر منطقی انجام تک پہونچ گیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں فیصلہ ہوگیا اور بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر ہوگئی ہے ۔ اس کے باوجود مسلمان اس مسئلہ کو فراموش کرنے تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے سماجوادی پارٹی نے مہاراشٹرا میں مہا وکاس اگھاڑی سے علیحدگی اختیار کرلی ہے ۔ حالانکہ قومی سطح پر انڈیا اتحاد کی ساخت پر ابھی کوئی اثر نہیں ہوا ہے لیکن پارٹیوں کی صفوں میں بے چینی ضرور محسوس کی جانے لگی ہے ۔ بات صرف مہارشٹرا تک محدود نہیں ہے ۔ یہی صورتحال دہلی میں بھی نظر آنے لگی ہے ۔ ویسے تو اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی محض اپنی سوچ کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے اور اس نے ہریانہ میں بھی کانگریس سے اتحاد نہیں کیا تھا اور اب دہلی میں بھی اسمبلی انتخابات کیلئے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مابین کسی طرح کی انتخابی مفاہمت ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔
دہلی اور مہاراشٹرا کے علاوہ قومی سطح پر انڈیا اتحاد کی قیادت کا مسئلہ بھی ابھرنے لگا ہے اور کچھ جماعتیں اور گوشے چاہتے ہیں کہ انڈیا اتحاد کی قیادت ‘ جو فی الحال کانگریس کے پاس ہے ‘ ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی کو سونپی جائے ۔ کانگریس اس معاملے میں کوئی واضح موقف نہیں رکھتی اور دوسری جماعتوں نے بھی اس پر کھل کر اظہار خیال نہیں کیا ہے لیکن اس طرح کی قیاس آرائیاں ضرور شروع ہوگئی ہیں۔ کچھ جماعتیں انڈیا اتحاد کی موجودہ حالت سے مطمئن نہیں ہیں اور انہیں مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ اس صورتحال میں بہتر ہوگا کہ تمام جماعتوں کے ذمہ دار قائدین مل بیٹھ کر صورتحال پر غور کریں۔ اس بات کا فیصلہ کریں کہ شکستوں کو کامیابیوں میں تبدیل کرنے کیلئے کیا کچھ کیا جانا چاہئے ۔ بی جے پی کے پروپگنڈہ کا جواب دینے کیلئے اور اس سے نمٹنے کیلئے ایک جامع اور موثر حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے ۔ اگر موجودہ قیادت میں یہ کام ممکن نہیں ہو پا رہا ہے تو اس کی وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے اثرات پر غور کیا جانا چاہئے اور جو کچھ بھی متبادل موثر ثابت ہوسکتا ہے وہ کچھ کیا جانا چاہئے ۔ تمام جماعتوں کو اس بات پر متفق ہونا چاہئے کہ انڈیا اتحاد کو یکجا اور متحد کرتے ہوئے ہی بی جے پی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ اسے شکست دینے کیلئے سبھی جماعتوں کو اپنا اپنا رول نبھانا ہوگا اور ایک دوسرے سے تعاون و اشتراک کرنا ہی ہوگا ۔ یہ انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں کی اپنی ضرورت بھی ہے اور اسے سیاسی مجبوری بھی کہا جاسکتا ہے ۔
بات مہاراشٹرا کی ہو یا پھر دہلی کی ہو یا پھر قومی سطح پر اس اتحاد کی قیادت کی ہو سبھی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے فیصلہ کیا جانا چاہئے ۔ انتہائی سنجیدگی اور غیرجانبداری سے شکست کی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا ۔ ان پر قابو پانے کی تدبیر کرنی چاہئے اور ایسا کوئی راستہ دریافت کیا جانا چاہئے جس کے ذریعہ سے بی جے پی کا جواب دیا جاسکے ۔ اس کی کامیابیوں کا سلسلہ روکا جاسکے اور انڈیا اتحاد کی شکستوں کو کامیابیوں میں تبدیل کیا جاسکے ۔ یہ سب کچھ انڈیا اتحاد کی جماعتوں کے ایک رائے ہونے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ اختلافات کو مزید تقویت پانے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اس سے اتحاد کو نقصان ہوسکتا ہے ۔
دہلی میں لا قانونیت
قومی دارالحکومت دہلی میں نظم و قانون کی صورتحال ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ حالانکہ دہلی کیلئے خصوصی حفاظتی اور سکیوریٹی انتظامات ہونے چاہئیں تاہم وہاں آئے اس دن اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں جن سے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ابتر ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ کہیں خواتین پر حملے ہو رہے ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں کھلے عام قتل کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ دہلی میں نظم و قانون کا مسئلہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آتا ہے اور ریاستی حکومت کا اس میں کوئی رول نہیں ہوتا ۔ دہلی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفارتخانے بھی ہوتے ہیں اور یہاں لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کی بہت اہمیت ہوتی ہے ایسے میں وزارت داخلہ کو وہاں کی صورتحال کا خاص طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جرائم کی شرح میں اضافہ کو روکا جانا چاہئے ۔ خواتین کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہئے اور قتل و غارت گری کے واقعات کو روکا جانا چاہئے ۔ دہلی میں سکیوریٹی اور لا اینڈ آرڈر کے مسئلہ کو سیاسی رنگ دئے بغیر اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت کو اس معاملے میں تجاویز پیش کرنی چاہئے ۔