ملک میں پارلیمانی انتخابات کیلئے عملا وقت قریب آتا جا رہا ہے ۔ آئندہ چار مہینوں میں انتخابات کا انعقاد عمل میں آسکتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کیلئے یہ وقت کم ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں کئی طرح کی تیاریاں کرنی ہوتی ہیں۔ ایک ہی جماعت میں کئی امور ہوتے ہیں جو توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں اور ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے پارٹیوں کو اپنے اپنے طور پر فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ جہاں اتحاد کی باتیں ہوں وہاں تو اور بھی وقت کی کمی ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کے انڈیا اتحاد کیلئے بھی وقت زیادہ نہیں رہ گیا ہے ۔ کئی امور ایسے ہیں جن پر توجہ دیتے ہوئے ان کو قطعیت دی جانی ہے اور اس کیلئے تمام ہی جماعتوں کو اپنا اپنا وقت دینا ہوتا ہے ۔ سیاسی قائدین اپنی مصروفیات میں محو ہوتے ہیں اور ایسے میں کئی جماعتوں پر اتحاد میں شمولیت کے ساتھ کئی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتے ہیں۔ اب جبکہ انتخابات کیلئے وقت گذرتا جا رہا ہے ایسے میں انڈیا اتحاد کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ عوام کے سامنے ایک متحدہ پیام پیش کرے ۔ متحدہ پروگرام پیش کرے اور ایسے فیصلے کریں جو ایک دوسرے کیلئے قابل قبول ہوں۔ جس وقت سے انڈیا اتحاد کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے اسی وقت سے اس اتحاد میںرخنہ اندازی کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ اس اتحاد میںدراڑ ڈالنے کیلئے کئی گوشے سرگرم ہوگئے ہیں۔ کئی قائدین کو ایک دوسرے کے تعلق سے متنفر کرنے اور ان میں بدگمانیوں کو فروغ دینے کی منظم کوششوں پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ ہر جماعت کو دوسری کے تعلق سے شبہات کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انڈیا اتحاد کے اجلاس میں بھی اگر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس پر بھی اختلاف رائے کی خبریں عام کرتے ہوئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا گیا ہے ۔ ایسی کوششیں سیاسی مفادات سے عاری نہیں ہوسکتیں۔ اس کے پس پردہ محرکات بھی سب پر عیاں ہیں اور ملک کے عوام بھی سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ۔ ایسے میں انڈیا اتحاد کی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے ذہنوں میں اگر کچھ اندیشے پیدا ہوتے ہیں تو ان کا ازالہ کرے ۔ عوام کے ذہنوں میں ایک جامع اور موثر تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جائے ۔
گذشتہ دنوں دہلی میں انڈیا اتحاد کا اجلاس منعقد ہوا ۔ اس میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی نے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کو وزارت عظمی امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی تجویز پیش کی۔ حالانکہ خود مسٹر کھرگے نے اس پر معذرت کرلی ہے اور کہا کہ وہ صرف انڈیا اتحاد کی کامیابی کیلئے کوشاں رہنا چاہتے ہیں۔ اس مسئلہ پر بھی کچھ زر خرید میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس اور اداروں کی جانب سے اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ کئی قائدین اس تجویز سے ناراض ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا اتحاد میں شامل کسی بھی لیڈر نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وہ خود وزارت عظمی امیدوار بننا چاہتا ہے ۔ کسی نے بھی کسی بھی ایک قائد کے نام پر تبادلہ خیال نہیں کیا ہے ۔ ممتابنرجی نے خود یہ تجویز ایسے وقت میں پیش کی ہے جبکہ خود ممتابنرجی کی پارٹی کے قائدین چاہتے ہیں کہ مس بنرجی کو یہ چہرہ بنایا جائے ۔ بات ابھی تجویز کی حد تک محدود ہے ۔ اس پر کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا ہے ۔ کوئی مباحث نہیں ہوئے ہیں۔ کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا ہے ۔ کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود کچھ گوشوں کی جانب سے اختلافات کو ہوا دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیںاور اتحاد میںشامل جماعتوں کے مابین سیاسی ماحول اور باہمی بھروسہ اور اعتماد کی فضاء کو متاثر کرنے اور بگاڑنے کے منصوبوں کے تحت کام کیا جا رہا ہے ۔ اتحاد میںشامل سبھی جماعتوں کو اس طرح کے عزائم اور مقاصد سے چوکنا رہنا چاہئے ۔
جہاں تک اتحاد کے دیگر امور اور نشستوں کی تقسیم کے مسائل ہیں ان پر اس اتحاد کے قائدین اور اس میںشامل جماعتوں کو سنجیدگی سے مذاکرات کا عمل شروع کردینا چاہئے اور جتنا ممکن ہوسکے جلد اس پر کسی فیصلے پر پہونچنا چاہئے تاکہ اس اتحاد کے امیدواروں کو اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں کام کرنے اور عوام تک رسائی حاصل کرنے کا موقع مل سکے ۔ ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام تیار کرتے ہوئے عوام میں ایک متحدہ پیام بھیجنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مختلف گوشوں سے اخؒلافات کو ہوا دینے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس کو ناکام بنایا جاسکے اور عوام کے ذہنوں میں اگر کوئی الجھن پیدا ہوئی ہے تو اسے دور کیا جاسکے ۔