انکم ٹیکس ریٹرنس بوجھ یا فائدہ

   

سید جمشید احمد، سی اے
اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ انکم ٹیکس ریٹرن بھرنا ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ بعض لوگوں کی یہ سوچ ہوگئی ہے کہ انکم ٹیکس ریٹرنس بھرنے میں بوجھ زیادہ اور فائدہ کم ہے لیکن کیا لوگوں کی یہ سوچ حقیقت میں صحیح ہے؟ اکثر لوگوں کو انکم ٹیکس ریٹرنس داخل کرنے کے فوائد کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ اس کے کئی فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ یا کوئی اور بیرونی ممالک میں مقیم ہونے (ایمگریشن) یا پھر وہاں ملازمت کرنے یا کاروبار کرنے کی درخواست دیتے ہیں تو اس کے لئے جو اہم دستاویزات پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ان میں انکم ٹیکس ریٹرن کے ادخال سے متعلق دستاویزات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح انشورنس پالیسی خریدنے، کار کی خریدی یہاں تک کہ بچوں کے باوقار تعلیمی اداروں میں داخلے وغیرہ کے موقع پر بھی انکم ٹیکس ریٹرنس ادخال سے متعلق دستاویزات کافی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ متعلقہ شخص کے مالی موقف کو واضح کرتے ہیں۔ اکثر لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ان پر انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنا لازمی نہیں ہے اس لئے انہیں انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مالی سال 2018-19 میں ہمارے ملک میں 78 کروڑ لوگوں نے انکم ٹیکس ریٹرنس داخل کیا جس کا مطلب صرف 1.46 کروڑ افراد نے انکم ٹیکس بھرا جبکہ 4.3 کروڑ افراد نے انکم ٹیکس ریٹرنس کے فارمس پُر کئے یعنی داخل کئے، تاہم ٹیکس ادا نہیں کیا جس سے اس شک کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ہر کسی کو انکم ٹیکس داخل کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی شخص انکم ٹیکس ریٹرنس داخل کرتا ہے

جس پر انکم ٹیکس ادا کرنا لازم نہیں اور انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے سے آپ کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ معاشی طور پر پسماندہ طلباء، بزرگ شہری، اسکالرشپس کا دعویٰ کرسکتے ہیں یا اسکالر شپ حاصل کرسکتے ہیں۔ انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کے مطابق ایسے افراد جن کی سالانہ آمدنی ڈھائی لاکھ کی حد سے زیادہ ہو تو ان پر انکم ٹیکس ریٹرنس برائے سال 2019-20 داخل کرنا لازمی ہے اور ایسے افراد جن کی ٹیکس کے قابل آمدنی 5 لاکھ تک ہو انہیں انکم ٹیکس بھرنے کی ضرورت نہیں، اگرچہ انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنا ان کے لئے ضروری ہے۔ مذکورہ رقم ڈھائی لاکھ یا پانچ لاکھ، ایل آئی سی، بچوں کی ٹیوشن فیس وغیرہ کی شکل میں تخفیف کے بعد ہی شمار کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص ڈیڑھ لاکھ روپے ایل آئی سی یا بچوں کی فیس کے طور پر ادا کرتا ہے پھر 75 ہزار روپے کا میڈیکل انشورنس رکھتا ہو اس پر ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ داری کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر کسی شخص کی سالانہ آمدنی 7.25 لاکھ تک ہو اور وہ ایل آئی سی، ٹیوشن فیس اور میڈیکل انشورنس میں 2.25 لاکھ تک سرمایہ مشغول کیا ہو یا پھر جس کی آمدنی 9.75 لاکھ تک ہو تو اس پر برائے نام 5 فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو سالانہ 5 تا 10 لاکھ روپے کماتے ہیں، اس کے باوجود ریٹرن داخل نہیں کرتے، حالانکہ یہ ان کے لئے فائدہ مند ہے۔
انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنا لازمی ہے اگر کوئی شخص سالانہ ایک لاکھ روپے برقی کا بل ادا کرتا ہے یا بیرونی سفر بشمول حج پر دو لاکھ روپے سے زائد خرچ کرتا ہے اس کے لئے بھی انکم ٹیکس ریٹرن لازمی ہے۔

لوگوں کا یہ سوچنا ہے کہ اگر وہ انکم ٹیکس ریٹرنس داخل نہیں کرتے تو پھر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ ان کی آمدنی سے واقف نہیں ہوتا لیکن انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے لئے بینکس، رجسٹری کے دفاتر وغیرہ ڈیٹا کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہوتے ہیں یعنی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ بینکس رجسٹری کے دفاتر اور جویلری شاپس وغیرہ سے تمام ڈیٹا حاصل کرلیتا ہیں۔ اس کا مقصد اگر کوئی شخص انکم ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کرتا تو اس سے صاف طور پر ٹیکس چوری کے کیس کے طور پر نمٹا جاتا ہے اور متعلقہ شخص کو نوٹسیں جاری کی جاتی ہیں۔ جہاں تک انکم ٹیکس کے ذرائع کا سوال ہے وہ مختلف افراد کے انکم ٹیکس کی جانچ کے لئے ایک طرح سے کراس چیک کرنے کے ذرائع ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اگر کوئی سالانہ 10 لاکھ روپے سے زائد رقم کسی مخصوص اکاؤنٹ سے بینک میں جمع کرواتا ہے تو متعلقہ بینکس انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو اس کی اطلاع دے دیتے ہیں۔ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ اگر رقمی تبادلہ یا لین دین 2.5 لاکھ روپے سے زائد ہو تو اس پر بھی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان حالات میں عوام کو چاہئے کہ انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھے۔ آپ کی اطلاع کے لئے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مالی سال 2019-20 کے لئے انکم ٹیکس ریٹرنس داخل کرنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2020 ہے۔