!اور اب منیکا گاندھی

   

سنتے ہیں کہ اپنے ہی تھے گھر لوٹنے والے
اچھا ہوا میں نے یہ تماشہ نہیں دیکھا
اور اب منیکا گاندھی !
ویسے تو بی جے پی کے کئی قائدین مسلسل مخالف مسلم ریمارکس کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر ان ریمارکس میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ کئی قائدین مسلمانوں کو دھمکانے پر بھی اتر آتے ہیں۔ گذشتہ کئی موقعوں پر ایسی مثالیں موجود ہیں جب مسلمان رائے دہندوں کو بی جے پی کے قائدین نے دھمکاتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ گذشتہ یو پی اسمبلی انتخابات میں ایک بی جے پی امیدوار مسلمانوں کو ووٹ کیلئے دھمکاتے ہوئے کیمرے پر قید ہوگئے تھے ۔ بی جے پی کے پاس ایسے قائدین کی ایک طویل فہرست ہے جو مسلمان مخالف ریمارکس کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تاہم کچھ قائدین کے تعلق سے یہ تاثر عام ہے کہ وہ سنجیدہ سیاست میں یقین رکھتے ہیں اور اب تک وہ کسی طرح کے تنازعہ کا شکار نہیں ہوئے تھے ۔ ان قائدین میں مرکزی وزیر منیکا گاندھی کا نام بھی شامل تھا لیکن اب وہ بھی ایسے قائدین کی فہرست میں شامل ہوگئی ہیں جو مسلمانوں کو دھمکانے پر اتر آئے ہیں۔ منیکا گاندھی اترپردیش میںسلطان پور حلقے سے بی جے پی امیدوار ہیں۔ اب تک یہاں سے ان کے فرزند ورون گاندھی رکن پارلیمنٹ تھے ۔ ورون اپنی والدہ کے حلقے پیلی بھیت چلے گئے ہیں اور پیلی بھیت سے منیکا گاندھی سلطان پور آگئی ہیں۔ یہاں انہوں نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو ایک طرح سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ کامیابی کے بعد اگر ان سے کام کروانے ہیں تو مسلمانوں کو انہیں ووٹ دینا چاہئے ۔ منیکا نے کھلے الفاظ میں انتباہ دیا کہ اگر مسلمان انہیں ووٹ نہیں دینگے تو وہ مسلم نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم نہیں کرینگی ۔ کامیابی کے بعد اگر مسلمانوں کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ان کے کام نہیں آئیں گی ۔ اگر مسلمان انہیں ووٹ دیتے ہیں تب ہی وہ ان کے کام کرنے کے تعلق سے کچھ سوچ سکتی ہیں۔ یہ مسلمانوں کو دھمکانے اور ایک طرح سے مستقبل کے حالات سے خوفزدہ کرنے کی کوشش ہی کہی جاسکتی ہے ۔ کسی بھی جماعت کے کسی بھی امیدوار کا ووٹ حاصل کرنے کا یہ طریقہ انتہائی تشویشناک ہے ۔
یہ رائے دہندوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہیں اپنی مرضی سے منتخب کریں اور جس کے چاہیں حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ انتخابات کے بعد جو نمائندہ منتخب ہوتا ہے یہ اس کا ذمہ اور فریضہ ہوتا ہے کہ اپنے حلقے کے تمام رائے دہندوں کیلئے کام کرے چاہے ان میں کوئی اس کیلئے ووٹ کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی انتخابی دوڑ میں مسلمانوں کی اہمیت کو کم کرنے کے بعد اب رائے دہندوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرنا چاہتی ۔حد تو یہ ہے کہ منیکا گاندھی جیسی سلجھے ہوئی سمجھی جانے والی لیڈر بھی خوف دلانے اور دھمکانے پر اتر آئی ہیں۔ رائے دہندوں کو ان کے روزگارا ور مستقبل میں کام کاج کے مسئلہ پر دھمکاتے ہوئے ووٹ حاصل کرنا جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ انتخابی عمل کا مذاق اڑانے جیسی حرکت ہے ۔ ایسی کوششیں ہمارے ملک کی جمہوریت ‘ ہندوستان جیسے ملک کی عظیم روایات اور اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ حالانکہ اس مسئلہ پر الیکشن کمیشن سے شکایت درج کروادی گئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین یہاں تک کہ مرکزی وزرا کو بھی کمیشن کے اقدامات کا کوئی خوف نہیں ہے اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیف منسٹرس بھی انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑنے میں مصروف ہیں۔ اس سے خود الیکشن کمیشن کی بے بسی اور لاچاری کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔
رائے دہندوں کو اور خاص طور پر ایک خاص طبقہ کے ووٹرس کو دھمکانا در اصل جمہوری عمل میں یقین نہ ہونے اور اپنی خود عوامی مقبولیت پر سوال پیدا کرنے کے مترادف ہے ۔الیکشن کمیشن کو اب تک پیش آئے اس طرح کے واقعات کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے ایسے ریمارکس کرنے اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ایک نوٹس جاری کرنا اور جواب ملنے پر خاموشی اختیار کرلینا مسئلہ کا حل ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ کمیشن کو قانون کے مطابق کسی دباو کے بغیر اور پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کمیشن کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کا محافظ ہے اور جمہوریت کو بچانے کیلئے اسے سخت موقف اختیار کرنا ہی ہوگا ۔
سیاسی قائدین کی تعلیمی ڈگریاں
ملک میں انتخابات کا موسم ہے ۔ ایک مرحلے کی رائے دیہی ہوچکی ہے جبکہ دیگر مراحل کیلئے مہم تیزی کے ساتھ جاری ہے ۔ ایسے میں سیاسی قائدین اور امیدواروں کی تعلیمی ڈگریوں پر سوال پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ جہاں سیاسی قائدین سابق میں پیش کئے گئے حلفنامہ میں ایک ڈگری کا ذکر کرتے ہیں تو تازہ حلفناموں میں ان کی تعلیمی قابلیت بالکل ہی تبدیل ہوچکی ہوتی ہے ۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک مسئلہ ہے کیونکہ اگر کوئی عام شہری اپنی تعلیمی قابلیت کے تعلق سے غلط بیانی سے کام لے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوتی ہے ۔ دھوکہ دہی کا مقدمہ درج ہوتا ہے اوراسے جیل بھیج دیا جاتاہے لیکن ہمارے ملک کے سیاسی قائدین ایسا لگتا ہے کہ تمام طرح کے قانونی جوابدہی کے احساس سے خود کو ماورا سمجھتے ہیں۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کی تعلیمی قابلیت بھی اب موضوع بحث بن گئی ہے ۔ 2014 کے انتخابی حلفنامہ میں انہوں نے اپنی تعلیمی قابلیت گریجویشن قرار دی تھی جبکہ تازہ ترین حلفنامہ میں انہوں نے خود کو انٹر تک تعلیم یافتہ قرار دیا ہے ۔ اس پر اپوزیشن سے تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن اور ملک کے دوسرے ذمہ دار اداروں کو ایسے قائدین پر روک لگانے کی ضرورت ہے ۔ ان کی تعلیمی قابلیت اور غلط بیانیوں پر ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔