اور اب وزیر اعظم بھی !

   

باغبانوں کے بھروسے پہ رہو گے کب تک
تم کو گلزار کے منظر کو بدلنا ہوگا
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے منفرد انداز کے لب و لہجہ اور تقریر کرنے کے انداز میں شہرت رکھتے ہیں۔ وہ طنز کسنے میں مہارت رکھتے ہیںاور مخالفین کا حوالہ اس ڈھنگ سے دیتے ہیں کہ وہ تلملا بھی جاتے ہیں اور ان سے جواب بھی نہیں بن پڑتا ۔ وزیر اعظم جب انتخابی موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کی تقاریر کا انداز بدل جاتا ہے ۔ وہ بھی عام قائدین کی طرح زبان بولنے لگتے ہیں۔ ان کے لب و لہجہ میں تبدیلی آجاتی ہے ۔ وہ اپنے روایتی انداز کی بجائے ایک مخصوص انتخابی انداز میں بدل جاتے ہیں۔ گذشتہ مرتبہ اترپردیش میں جب اسمبلی انتخابات ہوئے تھے وزیر اعظم نے قبرستان اور شمشان کا حوالہ دیتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس طرح کی بیان بازی کی اس وقت بھی کئی گوشوں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی ۔ اس طرح کا بیان ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک کے جلیل القدر عہدہ وزارت عظمی کیلئے مناسب نہیںتھا ۔ تاہم وزیراعظم نے انتخابی موڈ میں یہ انداز اختیار کیا تھا اور شائد اس کا اترپردیش اسمبلی انتخابات میں انہیں فائدہ بھی ہوا تھا ۔ ویسے تو بی جے پی کے کئی قائدین کی جانب سے مذہبی استحصال کے بیانات دئے جاتے ہیں اور یہ عام بات ہے ۔ کئی قائدین اشتعال انگیز زبان بولتے ہوئے انتخابات اور رائے دہی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ترقیاتی مسائل اور حکومتوں کی کارکردگی پر ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اور اس کے نتیجہ میں وہ عوام کی توجہ مبذول کروانے کیلئے اس طرح کی کوششیں کرتے ہیں ۔ حکومتوںکی جانب سے اپنی کارکردگی پیش کرتے ہوئے دوبارہ تائید حاصل کرنے کی روایت اور روش کو بی جے پی نے بدل کر رکھ دیا ہے اور اب کارکردگی کی بجائے متنازعہ مسائل کو ہوا دیتے ہوئے انتخابات جیتنے کی روش اختیار کرلی گئی ہے ۔ فی الحال جنوبی ریاست کرناٹک میں انتخابات کیلئے مہم چل رہی ہے ۔ بی جے پی پوری طاقت جھونکتے ہوئے ریاست میں اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر میں لگی ہوئی ہے ۔ آثار بی جے پی کیلئے مشکل دکھائی دے رہے ہیں اسی لئے انتخابی مہم میں پھر ایک بار متنازعہ مسائل ابھرنے لگے ہیں۔ بی جے پی کیلئے شائد اب کامیابی حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ رہ گیا ہے ۔
ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی بی جے پی کیلئے انتخابی مہم میں پوری شدت سے میدان میں اترچکے ہیں۔ وہ کرناٹک میں مسلسل کئی ریلیاں اور جلسے کر رہے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے اور اختیار ہے کہ وہ اپنی پارٹی کیلئے مہم چلائیں۔ مہم چلانے اور پارٹی کو کامیابی دلانے کی ذمہ داری ان پر عائد کردی گئی ہے ۔ ریاستی قائدین کیلئے کرناٹک کی مہم اب مشکل سے مشکل ہوگئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم نے کمرکس لی ہے ۔ تاہم وزیر اعظم کو اپنی سیاسی حکمت عملی کے مطابق تقاریر کرنی چاہئے تھیں لیکن اب وہ بھی متنازعہ مسائل کا تذکرہ اپنی تقاریر میں کرنے لگے ہیں۔ مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے انہوں نے ایک متنازعہ فلم ’ دی کیرالا فائیلس ‘ کا تذکرہ کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے کرناٹک میںا قتدار کی دعویدار کانگریس کو نشانہ بنانے کیلئے دہشت گردی کا تذکرہ کیا اور یہ الزام عائدکیا کہ دہشت گردانہ پس منظر رکھنے والے عناصر کے ساتھ کانگریس کے پس پردہ تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم اس طرح کے الزامات عائد کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے انہوں نے دی کیرالا فائیلس کا تذکرہ کیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ کیرالا فائیلس نامی فلم بناتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش ایک بار پھر کی جا رہی ہے ۔ اس میں محض ایک مفروضہ کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے ماحول بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایک نام نہاد مسئلہ لو جہاد کو ابھار کر عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جس مسئلہ کو اس فلم کے ذریعہ ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔
وزارت عظمی کا عہدہ انتہائی جلیل القدر ہے ۔ مل کے عوام کے نمائندے اور حکومت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے وزیر اعظم پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے وزیر اعظم پر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو برقرار رکھنے اور اسے مزید مستحکم کرنے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے ۔ تاہم سیاسی اغراض کیلئے وزیر اعظم نے متنازعہ مسئلہ کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے جو اس عہدہ پر فائز رہتے ہوئے نہیں کی جانی چاہئے تھی ۔ مقامی قائدین یا ریاستی قائدین کی جانب سے اس طرح کے مسائل کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ وزیر اعظم نے اپنے ان ریمارکس کے ذریعہ ایک طرح سے مایوس ہی کیا ہے جو شائد انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا ۔
شاہ چارلس سوم کی تاج پوشی
برطانیہ میںشاہ چارلس سوم نے تاج شاہی پہن لیا۔ آج ایک تقریب میں ان کی تاج پوشی عمل میں آئی ۔ وہ کئی برس سے ولیعہد رہے تھے اور اپنے والدہ ملکہ ایلزبتھ کے انتقال کے بعد وہ ملک کے شاہ بنائے گئے تھے ۔ شاہ چارلس سوم برطانیہ اور دیگر 14 دولت مشترکہ اقوام کے شاہ بن گئے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ہی شاہ بن گئے تھے تاہم ان کی تاج پوشی آج عمل میں آئی ۔ اس موقع پر دنیا کے مختلف ممالک سے شاہی خاندانوں کے افراد نے تاج پوشی کی رسم میںشرکت کی ۔ برطانیہ کے عوام بھی اس موقع پر خوشیاں مناتے دیکھے گئے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ عرصہ میں برطانیہ میںشاہی خاندان کی مقبولیت میںکمی آئی ہے ۔ کچھ دولت مشترکہ ممالک نے بھی اپنے الحاق کو ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا ۔ تاج پوشی کی رسم کے موقع پر مخالفین شاہی نے بھی احتجاج کیا ۔ احتجاج کرنے والے سینکڑوں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ۔ شاہ چارلس کی ذمہ داریاں حالانکہ رسمی ہی ہوتی ہیں تاہم ان کی ذمہ داریوں میں اب شاہی خاندان کی مقبولیت کے گراف کو بہتر بنانا بھی شامل ہے ۔ جس طرح سے خود برطانیہ کے عوام شاہی خاندان کی مخالفت کر رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دولت مشترکہ اقوام بھی تاج برطانیہ سے الحاق کو ختم کرسکتے ہیں۔ ایسے میں آئندہ وقت شاہ چارلس سوم کیلئے اہمیت کا حامل رہے گا اور ان کی ذمہ داریوں کی تکمیل وہ کس حد تک کر پائیں گے یہ دیکھنا ہوگا ۔ شاہی خاندا ن میں پہلے ہی پھوٹ اور اختلافات ہیں۔ شاہ چارلس سوم کو برطانوی عوام کی ناراضگی دور کرنے کے علاوہ شاہی خاندان کو بھی متحد رکھنے کا چیلنج پورا کرنا ہوگا۔