یہ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ تباہی ہوگی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے جو جھٹلاتے ہیں روز جزا کو اور نہیں جھٹلایا کرتے اِسے مگر وہی جو حد سے گزرنے والا گنہگار ہے۔ جب پڑھی جاتی ہیں اُس کے سامنے ہماری آیتیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کے افسانے ہیں، نہیں نہیں درحقیقت زنگ چڑھ گیا ہے اِن کے دلوں پر اُن کرتوتوں کے باعث جو وہ کیا کرتے تھے۔ (سورۃ المطففین۸تا۱۴)
سجین کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن جب خود قرآن نے اس کی وضاحت کردی کہ یہ اس کتاب کا نام ہے جس میں ان کے اعمالِ سیئہ لکھ کر محفوظ کردیئے جائیں گے، تو پھر مزید چھان بین کی ضرورت نہیں۔ اس لیے ان آیات میں سجین سے وہ دیوان مراد ہے جہاں اہل جہنم کے اسماء اور ان کے اعمال مندرج ہوں گے ۔ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ سجین ایک جگہ کا نام ہے جہاں دوزخیوں کی روحیں محبوس ہوں گی ، اس لیے علامہ آلوسی لکھتے ہیں: الکشف میں ہے ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کا نام بھی سجین ہو اور اس مقام کا نام بھی سجین ہو جہاں کفار کی رُوحیں ہیں تاکہ آیت اور اخبار میں کسی قسم کا تعارض نہ رہے۔ (رُوح المعانی)علامہ ابن منظور رَیْن کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں رین اس زنگار کو کہتے ہیں جو تلوار یا آئینہ کو لگ جاتا ہے ۔ جو غبار دل کو زنگار کی طرح ڈھانپ لیتا ہے اس کو بھی رَیْن کہتے ہیں۔ (لسان العرب) حسن بصری فرماتے ہیں پے درپے گناہ کرنے سے دل سیاہ ہوجاتا ہے ۔ اس سیاہی کو رَیْن کہتے ہیں اس کی وضاحت حدیث شریف میں بھی آئی ہے:حضور (ﷺ) نے فرمایا بندہ جب گناہ کرتا رہے تو وہ داغ بڑھتے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ سارے دل کو گھیر لیتے ہیں۔ یہی وہ رَیْن ہے جس کا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔(جاری ہے )