اولادتوآخر اولاد ہوتی ہے…!!

   

’’ آسیہ بہن اب تو آپ فری ہوگئیں، اب آپ اپنے طورپر زندگی بسر کرسکتی ہیں۔‘‘ نجمہ جو آسیہ کی پڑوسن ہے ان کے بیٹے کے گذر جانے پر پُرسہ دینے کیلئے آئی تھی اور اُن سے مخاطب تھی۔ ان جملوں کو سنتے ہی آسیہ پر ایک عجیب طرح کی کیفیت طاری ہوگئی۔ چہرے پر گہرے دُکھ اور کرب کا احساس عیاں تھا۔ اشکبار آنکھوں سے اپنی پڑوسن کو دیکھا اور کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن یوں محسوس ہوا گویا گلے میں کچھ اٹک گیا ہو۔ خاموش ہوکر سرجُھکا کر بیٹھ گئیں۔ ایک بار پھر اُن کے دل سے ہوک اُٹھی، تِلملاتے ہوئے گویا انہوں نے خود ہی سوال کیا کہ اپنے ، پرائے سبھی اپاہج و معذور اولاد کے گذر جانے پر یہ کیوں سمجھ لیتے ہیں کہ اُن کے اس دنیا سے ہمیشہ کیلئے جانے سے والدین کو دُکھ نہیں بلکہ ایک طرح کی آزادی کا احساس ہوگا !!،آسیہ کے بیٹے کر ولادت پر ڈاکٹروں نے بتلایا تھا کہ وہCerebral Palsy ( سیری برل پالسی ) نامی عارضہ کا شکار ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جو ہماری نقل و حرکت کا ضامن ہے کافی حد تک ناکارہ ہوچکا ہے لیکن اس کی ذہانت بالکل عام بچوں کی طرح ہے صرف وہ چلنے پھرنے کااہل نہیں ہوگا۔ آسیہ ٹوٹ گئی ، جب وہ حمل سے تھیں تو اوروں کی طرح انہوں نے بھی اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔ لیکن اُن کے خواب ریت کے گھروندے کی طرح ڈھیر ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہوتے ہوئے دل پر پتھر رکھ کر بچے کی پرورش میں وہ جُٹ گئیں۔وہ مزید دو بچوں کی ماں بن گئیں جو کہ بالکل نارمل تھے لیکن آسیہ کا ہر لمحہ پہلے بیٹے کی نگہداشت و پرورش میں گذرتا ۔ کئی مرتبہ اپنے معذور بچے کو دیکھ کر بے حال ہوجاتیں کہ آخر اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ اُس کا گناہ کیا ہے؟ کس جرم کی سزا ملی ہے اُسے؟ اور پھر اپنے بکھرے جذبات کو سمیٹ کر بیٹے کی کوئی ضرورت پوری کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کو گود میں اُٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتیں لیکن جلد ہی اس کو وہیل چیرکا سہارا لینا پڑا۔آسیہ روز مرہ کی عام زندگی سے ہٹ کر جی رہی تھی ۔ اکثر دوست احباب کی تقریبات میں وہ شامل نہیں ہوپاتیں۔ دوسری خواتین کو سج سنور کر تقاریب میں جاتے دیکھ کر سِسک اُٹھتیں کہ کاش ! وہ بھی اس طرح شوہر اور بچوں کے ساتھ شرکت کرسکتی۔ کبھی کبھار چڑچڑی ہوکر سوچتی کہ یہ بچہ مر کیوں نہیں جاتا، ایسے بکھرے ہوئے خیالات کو سمیٹتے ہوئے گھر کے کام کاج میںمصروف ہوجاتیں۔ پچھلے ماہ ان کے بیٹے کو نمونیہ ہوگیا، پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا اور دوران علاج ہی وہ ایک دن ماں کی گود میں سر رکھ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے دور ہوگیا۔ وہ 20برس کا تھا۔ اولاد تو آخر اولاد ہوتی ہے چاہے وہ دماغی و جسمانی طور پر معذور ہی کیوں نہ ہو اس کے گذر جانے پر اتنا ہی دُکھ ہوتا ہے جو ایک نارمل بچے کے انتقال پر ۔ لیکن نہ جانے کیوں اڑوس پڑوس کے لوگ ‘ دوست احباب یہ اخذ کرلیتے ہیں کہ معذور بچے کے انتقال پر والدین کو آزادی مل جائے گی، روزمرہ کی دیکھ بھال سے انہیں نجات مل جائے گی وغیرہ۔ یقیناً اسی لئے نجمہ نے اتنا تلخ جملہ کہا ہوگا۔ ماں اپنی اولاد کو اپنے خون سے سینچتی ہے ، اس کی چھوٹی سی چھوٹی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اُسے پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہے اور اگر بچہ اپاہج ہو تو اپنے وجود کو بھُلا کر اُسے وقت دیتی ہے، اور جب وہی بچہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس دنیا کو الوداع کہہ کر چلا جاتا ہے تو ماں کے اکیلے پن کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے۔ ہر لمحہ اُس کی یاد ستاتی ہے ، اُس کا کمرہ، اس کی چیزیں رہ رہ کر اُس کے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ خالی وہیل چیر دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔ ایسے میں بھلا کیسی آزادی …؟ میری گذارش ہے کہ اگر کسی کو ایسے گھرمیں پُرسہ دینے کیلئے جانے کا اتفاق ہو تو والدین کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاتے ہوئے اُن سے گفتگو کریں۔