سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ لڑکی کو باپ نے تعلیم دلوائی من بعدہ وہ معلمہ مامور ہوئی۔ اور سات سال تین ماہ تک اپنی سالم تنخواہ ماہ بماہ والد کے حوالہ کرتی رہی اسکے بعد لڑکی کی شادی ہوگئی تو وہ خود اپنی تنخواہ حاصل کرلیا کرتی ہے۔ لڑکے کو بھی موصوف نے تعلیم دلوائی ہے اور اسکو بھی ملازم ہوکر ایک سال کا عرصہ ہوتا ہے اور ایک ماہ قبل شادی بھی ہوگئی۔زید ضعیف العمر ہیں موصوف کی آمدنی اور لڑکی کی آمدنی سے حاصل کردہ جائیداد موجود ہے۔اب موصوف یہ ساری جائیداد صرف تنہا فرزند کو دے کر لڑکی کو محروم کردینا چاہتے ہیں۔ اور لڑکی کا مطالبہ یہ ہے کہ کم ازکم اس کی آمدنی سے جو جائیداد خریدی گئی ہے وہ اس کو دیدی جائے۔ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں لڑکی تاریخ شادی تک اپنے باپ {زید} کے زیر پرورش رہتے ہوئے جو کچھ کمائی وہ سب باپ کی ملک ہے اب لڑکی کو اس کے مطالبہ کا حق نہیں۔ رد المحتار جلد تین کتاب الشرکۃ صفحہ نمبر ۵۴۰ میں ہے وفی الخانیۃ زوج بنیہ الخمسۃ فی دارہ وکلھم فی عیالہ واختلفوا فی المتاع فھو للأب وللبنین الثیاب التی علیھم لاغیر۔
البتہ زید کو چاہئے کہ وہ اپنی جائیداد لڑکے اور لڑکی دونوں میں تقسیم کریں۔ ساری جائیداد لڑکے کو دے کر لڑکی کو محروم کردینا گناہ ہے۔ درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد چہارم کتاب الھبہ میں ہے وفی الخانیۃ لابأس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ لأنھا عمل القلب وکذا فی العطایا ان لم یقصدبہ الاضرار وان قصدہ یسوی بینھم یعطی البنت کالابن عند الثانی وعلیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز و أثم۔ فقط واﷲ أعلم بالصواب