اوور ٹائم کرتا گودی میڈیا

   

اپنوں ہی کا وہ کام تھا کہتا ہے دل یہی
جب آگئے تھے راہ میں پتھر یہاں وہاں
جیسے جیسے انتخابات کا موسم عروج پر پہونچ رہا ہے کئی گوشوں کی سرگرمیوںمیںاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی سرگرمیوں میںاضافہ تو فطری بات ہے ۔ ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے ہوئے رائے دہندوں تک پہونچنا اور ان کو سبز باغ دکھاتے ہوئے ان کی تائید اور ووٹ حاصل کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہی ہے ۔ وہ انتخابات کے موسم میں ایسا پوری شدت سے کرتے ہیں۔ ہندوستان میں تاہم یہ روایت بن گئی ہے کہ جب کبھی انتخابات کا وقت رہتا ہے کئی گوشے سرگرم ہوجاتے ہیں اور سماج میںنفرت پھیلانے اور ماحول پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ ہر گوشہ اپنے اپنے طور پر یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کیا جائے اور اس کیلئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ یہ گوشے بھی انتخابات کے موسم میں بہت زیادہ حرکت میں آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب ایک اور گوشہ ہے جو بہت زیادہ سرگرم ہوگیا ہے اور وہ ہے گودی میڈیا ۔ گودی میڈیا ویسے تو ہمیشہ ہی سرگرم رہتا ہے ۔ حکومت کی چاپلوسی اور دلالی کرتے ہوئے اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حقیقی مسائل کو عوام کی توجہ سے ہٹانے میں بھی یہ میڈیا اہم رول ادا کرتا ہے اور نت نئے انداز سے غیر اہم مسائل کو موضوع بحث بناتے ہوئے عوام کی توجہ مبذول کی جاتی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے میڈیا در اصل اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اب ماحول یہ ہوگیا ہے کہ گودی میڈیا میں خود ایک طرح کی ریس چل رہی ہے کہ کون زیادہ چاپلوسی کرتا ہے اور کون زیادہ سیاسی آقاوں کی دلالی کرتے ہوئے انہیں خوش کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ گودی میڈیا اپنے جو فرائض ہیں انہیں پوری طرح سے فراموش کرچکا ہے اور صرف دلالی پر توجہ دیتے ہوئے حکومت کی چاپلوسی میں لگا ہوا ہے ۔ حکومت کو خوش کرنا اور اپوزیشن جماعتوں کو کچل کر رکھ دینا یہ میڈیا کا اصل کام بن کر رہ گیا ہے ۔ حالانکہ یہ کام حکومت اور اس کے تحت کام کرنے والے ادارے بخوبی نبھا رہے ہیں لیکن گودی میڈیا بھی اس معاملے میں خود کو پیچھے رکھنے تیار نہیں ہے اور اس معاملے میں بھی وہ حتی المقدور چاپلوسی میں لگا ہوا ہے ۔
جیسے ہی ملک میں پارلیمانی انتخابات کا ماحول گرم ہونے لگا ویسے ہی میڈیا کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ میڈیا ایسے ایسے پہلووں کو اجاگر کرنے میں لگا ہوا ہے جن کے ذریعہ اپوزیشن کو ممکنہ حد تک ختم ہی کردیا جائے ۔ یہ در اصل ہندوستانی جمہوریت کیلئے ایک خطرہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہمہ جماعتی سیاسی نظام ہمارے ملک کی جمہوریت کی طرہ امتیاز ہے ۔ یہ ہماری انفرادیت ہے کہ کئی جماعتوں کے کام کرتے ہوئے ہماری جمہوریت استحکام پاتی ہے اور اسے مسلسل تقویت ملتی رہتی ہے ۔ ملک کے عوام بھی جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے جمہوریت کے استحکام کی وجہ بنتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے طور پر انتخابی مقابلے کرتے ہوئے جمہوری عمل میں اپنی حصہ داری نبھاتی ہیں۔ میڈیا کا جہاں تک سوال ہے تو وہ بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے ذریعہ جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنتا رہا ہے ۔ تاہم حالیہ برسوں میں صورتحال پوری طرح سے تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔ میڈیا اپنے فرائض کی انجام دہی سے زیادہ چاپلوسی اور دلالی میں مصروف ہوگیا ہے ۔ اپوزیشن کو تشہیر میں ان کا جائز وقت دینے اور ان کے نقطہ نظر کو عوام میں پیش کرنے اور عوام کو اس سے واقف کروانے کی بجائے میڈیا کے کان کھینچنے کی کوشش زیادہ ہو رہی ہے ۔ حکومت اور سیاسی آقاوں کی سرپرستی میں انہیں ایک طرح سے کھلی چھوٹ بھی ملی ہوئی ہے ۔ ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو ان گودی میڈیا کے دلال اینکرس کی وجہ سے بھی نقصان ہو رہا ہے لیکن ان کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی فی الحال ممکن ہی نظر نہیں آتی ۔
اب جبکہ ملک میں انتخابات کا ماحول ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں لگاتار تیزی پیدا ہونے لگی ہے ایسے میں گودی میڈیا بھی اوور ٹائم کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ حقائق سے واقف کرواتے ہوئے رائے دہندوں کو بہتر اور مناسب فیصلہ کرنے میں مدد کرنے کی بجائے میڈیا ان کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے میں جٹا ہوا ہے ۔ ملک میں صرف ایک سیاسی نقطہ نظر کو درست قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کے وجود کو ہی ختم کرنے کی مہم ایک طرح سے شروع کردی گئی ہے اور یہ کوششیںہندوستانی جمہوریت کی بقاء کیلئے مضر کہی جاسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اپنے فرائض منصبی کو حقیقی معنوں میںادا کرتے ہوئے ملک کے عوام کو حقیقی صورتحال سے واقف کروائے ۔ مسائل سے انہیں آگا ہ کیا جائے تاکہ وہ کوئی بہتر فیصلہ کرپائیں اور اس سے ملک کی جمہوریت کو استحکام اور تقویت حاصل ہوسکے ۔
مختار انصاری کی موت ‘ تحقیقات ضروری
اترپردیش میں ایک اور طاقتور سیاسی لیڈر سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کی موت ہوگئی ۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ جیل میں ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔ انہیںفوری دواخانہ منتقل کیا گیا ۔ دوران علاج قلب پر شدید حملے کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی ہے ۔ ارکان خاندان کا جہاں تک کہنا ہے کہ مختار انصاری کو جیل میںزہر دیا گیا ۔ اس الزام سے عدالت کو بھی واقف کروایا گیا تھا ۔ خود مختار انصاری نے عدالت میں درخواست داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں جیل میں زہر دیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ حکام کی جانب سے اس الزام کی تردید کی گئی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سارے معاملے کی انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ عدالتی تحقیقات کروائی جائیں۔ سپریم کورٹ یا پھر ہائیکورٹ کے کسی برسر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کروائی جانے چاہئے تاکہ حقائق کو منظر عام پر لایا جاسکے ۔ جیلوں میں اور پولیس کی حراست میں اس طرح ملزمین کی اموات کوئی عام بات نہیںہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ خاص طور پر اترپردیش میںصورتحال بالکل ہی لاقانونیت والی ہے ۔ تحویل میں قتل وہاں عام بات ہوگئے ہیں۔ پولیس کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ تحویل میں عتیق احمد کا قتل کیا گیا اور پولیس فورس تماشہ دیکھتی رہی ۔ اسی طرح اب مختار انصاری کو بھی ان کے افراد خاندان کے الزام کے مطابق موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ۔ یہ معاملہ بھی انتہائی سنگین نوعیت کا ہے اور غیرجانبداری سے جامع تحقیقات کرواتے ہوئے حقیقت کو منظر عام پر لانا چاہئے تاکہ پولیس اور عدالتی تحویل میں اموات پر جو شبہات ہیں ان کا ازالہ ہوسکے ۔