بہار میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول کی اجرائی عمل میں آچکی ہے اور ریاست میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوگیا ہے ۔ اب سیاسی جماعتیں مسلسل سرگرم ہوگئی ہیں اور وقت سے قبل تیاریوں کو قطعیت دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ امیدواروں کا انتخاب کیا جا رہا ہے ۔ مختلف جماعتوں میں اتحاد کو قطعیت دی جا رہی ہے اور انتخابی حکمت عملی بناتے ہوئے عوام سے رجوع ہونے کے منصوبے تیار ہو رہے ہیں۔ ریاست کے عوام کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ بھی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہر جماعت کے انتخابی وعدوں کا جائزہ لیا جائے گا ۔ ان کے اب تک کے وعدوں کے ریکارڈ کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا اور ان کی سنجیدگی کی بنیاد پر عوام اپنے ووٹ کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ تاہم جیسے ہی بہار میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے ویسے ہی اوپینین پول کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں بھی تیز کردی گئی ہیں۔ نت نئے اداروں کی جانب سے ایسے سروے پیش کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر ایک سوچ مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور انہیں سادہ ذہن کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حالانکہ ہر بار کے انتخابات میں اوئینین پول کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس کیلئے معروف ادارے بھی موجود ہیں اور یہ کام پہلے سے ہوتا رہا ہے ۔ تاہم اس بار بہت سے ادارے اس کام میں سرگرم ہوگئے ہیں اور جو عام تاثر ہے اس کو جھٹلاتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کیلئے کام کیا جارہا ہے ۔ ویسے تو پہلے بھی کئی سیاسی جماعتیں اس طرح کے اوپینین پول یا انتخابی سروے کی غیرجانبداری پر سوال کرتی رہی ہیں تاہم اب یہ صورتحال اور بھی زیادہ واضح ہوگئی ہے ۔ جو ادارے سروے کے کام کر رہے ہیں وہ پہلے ہی سے کسی نہ کسی پارٹی یا کسی نہ کسی نظریہ سے وابستگی رکھتے ہیں اور ایک مخصوص سوچ کے ساتھ عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے انتخابی عمل پر اثرا نداز ہونے کی کوشش ہے اور ایسی کوششوں پر روک لگائے جانے کی بھی وکالت ہو رہی ہے ۔
انتخابی سروے کے نام پر مخصوص علاقوں میں محض چند ہزار ووٹرس سے رائے لیتے ہوئے یا ان کی زبان پراپنے الفاظ منتقل کرتے ہوئے الیکشن پر اثرا نداز ہونے کی کوششیں سود مند نہیں ہوسکتیں۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد ووٹ ڈالتے ہیں اور انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ عوام کے موڈ کا پتہ چلانے کیلئے کوئی پیمانہ ایسا نہیں ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کی رائے کا مظہر ہوسکے ۔ صرف چند افراد سے اور وہ بھی مخصوص سوالات کے ساتھ پیش ہوکر کوئی نتیجہ اخذ کرنا درست عمل نہیں کہا جاسکتا ۔ ملک میں میڈیا جس طرح سے برسر اقتدار پارٹی کی غلامی میں لگا ہوا ہے اس صورتحال میں تو اوپینین پولس کی اہمیت اور بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔ یہ ادارے محض حکومت کی چاپلوسی کرنے اور اس کی انتخابی مہم کے حصہ دار بن کر کام کرنے میں مصروف ہیں اور حقیقی معنوں میں عوام کے موڈ کو پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ یہ لوگ عوام کے موڈ کو سمجھنے اور اس کو منظر عام پر لانے کی بجائے ایک مخصوص سوچ کو عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ ان کی مرضی کا جواب نہیں دیتے ان کی رائے کو پیش کرنے میں بھی پس و پیش کیا جاتا ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں ان کو درپیش مسائل کو پیش کرنے کی بجائے ہندو ۔ مسلم کا راگ الاپا جاتا ہے اور ان کو حقیقی مسائل سے بھٹکانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ اوپینین پول کے ذریعہ کسی ایک مخصوص جماعت یا اتحاد کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں جو انتخابی عمل کیلئے درست نہیں ہے ۔
انتخابی عمل پوری طرح سے آزادنہ اور منصفانہ ہونا چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کو یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ عوام سے رجوع ہوں ۔ اپنے وعدے عوام کے سامنے پیش کریں۔ جو چاہے دعوے کئے جائیں اور عوام کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس پر کسی کو مسئلہ نہیں ہے تاہم پچھلے دروازے سے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوششوںکو روکا جانا چاہئے ۔ اس سے انتخابی عمل کے غیرجانبدار ہونے پر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ متعلقہ حکام اور خاص طور پر الیکشن کمیشن کو جس طرح سے ایگزٹ پولس پر تحدیدات ہیں اسی طرح اوپینین پولس کیلئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابی عمل متاثر ہونے نہ پائے ۔