اویسی صاحب، مسلم دوست یا دشمن! … ظفر آغا

, ,

   

جب کسی قوم کی عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں تو وہ قوم اپنے دوست و دشمن کا فرق نہیں کر پاتی اور اس طرح اپنی تباہی کے نت نئے راستے تلاش کرتی رہتی ہے۔ بہار کے انتخابی نتائج سے یہ واضح ہے کہ ہندوستانی مسلمان نے اپنی تباہی کا ایک نیا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ اور اس راستے کا نام اسدالدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ہے۔ بہار کے چناوی نتائج سے یہ واضح ہے کہ بہار میں اسدالدین صاحب کی پارٹی سے مسلمانوں کو نقصان اور بی جے پی کو فائدہ رہا۔ اگر اے آئی ایم آئی ایم چناؤ میں نہ ہوتی تو اس بات کے واضح امکان تھے کہ بہار میں مہاگٹھ بندھن کی سرکار برسراقتدار ہوتی اور بی جے پی اتحاد کو شکست ہوتی۔ ارے بھائی، وہ پانچ سیٹیں جن پر اے آئی ایم آئی ایم کے نمائندے کامیاب ہوئے، وہ گٹھ بندھن کو جاتیں اور تقریباً جن دس سیٹوں پر اتحاد کے ’ووٹ کٹوا‘ کا رول ادا کیا، وہ بھی گٹھ بندھن کو ہی ملتیں اور اس طرح بہار میں اس وقت اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت ہوتی۔ اویسی صاحب کی سیاست کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہار میں آخر سیدھی بی جے پی کی حکومت دندناتی ہوئی آ گئی۔ سب واقف ہیں کہ اس بار بہار میں نتیش کمار نام کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اقتدار کی باگ ڈور تو سیدھے نریندر مودی اور امت شاہ کے ہاتھوں میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں : جواہر لال نہرو کا وہ ’اقدام‘ جس کی وجہ سے سنگھ آج تک ان کا دشمن بنا ہوا ہے! …ظفر آغا

اب بتائیے ان حالات میں بہاری مسلمان اور بہاری ’مسلم مفاد‘ کا کیا ہوگا! کیا اب کوئی گارنٹی ہے کہ اتر پردیش اور دیگر بی جے پی والے صوبوں کی طرح بہار میں بھی ’موب لنچنگ‘ نہ شروع ہو جائے۔ بہار ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں تقریباً پچھلے تیس سالوں میں ایک بھی بڑا ہندو-مسلم فساد نہیں ہوا۔ سنہ 1992 میں بابری مسجد گری اور سارے ہندوستان کے مسلمانوں پر قہر ٹوٹ پڑا۔ ادھر بہاری مسلمان چین و سکون کی سانس لیتا رہا۔ بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور جانے کے بعد کیا اب ممکن ہے کہ بہار میں ہندو-مسلم فساد نہ ہوں، اور فرقہ وارانہ امن و امان قائم رہے۔ صاحب اگر کسی صوبہ میں لمبے عرصے تک فرقہ وارانہ امن قائم رہتا ہے تو اس سے کیا مسلمانوں کو فائدہ نہیں ہوتا۔ قوم جب چین کی سانس لیتی ہے تو ترقی بھی ہوتی ہے۔ اب بہار میں بی جے پی دندنائے گی اور سماج میں مسلم مخالفت کا زہر گھولے گی۔ ظاہر ہے کہ اس ماحول میں کہاں کی ترقی اور کیسا سکون۔ بس یوں سمجھیے کہ اب بہار میں مسلم سکون بھی چند روز کا مہمان ہے۔ کیا بہار میں اس سیاسی اتھل پتھل کے لئے اویسی صاحب کی کوئی ذمہ داری ہے کہ نہیں!

اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ابھی بھی جب اویسی صاحب کی سیاست پر سوال اٹھتے ہیں تو بہار ہی نہیں بہار کے باہر بھی ایک مسلم طبقہ اویسی صاحب کے دفع میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسدالدین اویسی وہ واحد مسلم لیڈر ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر مسلم مفاد کی بات پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر کرتے ہیں۔ اویسی ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو سیکولر پارٹیوں کے مسلم ووٹ بینک کی پول کھولتے ہیں۔ وہ اکیلے شخص ہیں جو ٹی وی پر بھی تال ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ’میں تو بھارت ماتا کی جے نہیں کہوں گا‘۔ بہت اچھی بات ہے کہ اویسی صاحب کھل کر ’مسلم مفاد‘ کی بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ لیکن ہر سیاست اسی وقت کامیاب سمجھی جاتی ہے جب اس کا فائدہ ان لوگوں یا فرقہ کو پہنچے جن کے لئے وہ سیاست کی جاتی ہے۔ پھر ہر سیاست کو کرنے کا ایک انداز یا اسٹریٹجی ہوتی ہے۔ اس اسٹریٹجی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے تحت کی جانے والی سیاست سے لوگوں کو نقصان نہ ہونے پائے بلکہ فائدہ ہو۔